GHAG

خوشحال خان اور ہنر

روخان یوسفزئی

پختون قوم دنیا کی ایک ایسی عجیب قوم ہے کہ جب تک تاریخ اس قوم کے بارے میں خود کچھ نہیں کہتی یہ قوم اپنے بارے میں یا اپنی تاریخ،تہذیب اور اپنے اسلاف کے بارے میں اکثر غافل اور خاموش ہی رہتی ہے۔جس کا ایک ہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اس قوم کا اجتماعی حافظہ الٹا کام کرتا ہے یعنی جو شخصیات اور تاریخی واقعات کو بار بار یاد کرنے انہیں اپنی نئی نسل کو منتقل کرنا چاہیئے،ان سے سروکار ہی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم آج بھی اپنی تاریخ اپنے اسلاف اور اپنی پہچان سے نابلد ہے۔

25 فروری پختون قوم کے اس نابغہ روزگار شخصیت خوشحال خان خٹک کی 336 ویں برسی ہے جو مغل بادشاہ شاجہان کے دور میں 1613ءکو پیدا ہوئے اور 25فروری 1689ء میں اس دارفانی اور اپنی قوم سے انتہائی شاکی رحلت کرگئے اور جسے دنیا صاحب سیف و قلم کے نام سے جانتی ہے۔ ہاں آج خوشحال خان خٹک کی وفات کی تاریخ ہے۔ وہ خوشحال جسے حقیقی معنوں میں کثیرالجہت اور بے مثال شخصیت کہا جاتا ہے۔ جو بیک وقت شاعر،ادیب،مورخ،طبیب،شکاری،جنگجو،سردار،سیاح،فلسفی،ماہرنفسیات،مذہبی عالم اور سیاست دان رہا۔میں اکثر دوستوں کی نجی محفلوں اور ادبی تقریبات میں یہ بات یا دعویٰ بڑے شدو مد سے کرتا پھرتا ہوں کہ دنیا کے تمام اقوام کی تاریخ میں کسی بھی دوسری قوم کے پاس خوشحال خان خٹک جیسی کثیرالجہت،کثیرالصفات اور کثیرالتصانیف شخصیت نہیں ہے جس کی ذات میں بیک وقت اتنی زیادہ بے شمار صفات موجود ہوں۔ انسانی زندگی اور کائنات کا وہ کونسا موضوع ہے جس پر خوشحال خان خٹک نے قلم نہ اٹھایا ہو اور وہ بھی ایک ایسے علمی ، سائنسی اور خوبصورت انداز میں کہ

”میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے“

 اور یہ بات یا دعویٰ میں کسی” تہذیبی نرگسیت“ یا کسی مبالغہ کی بنیاد پر نہ کہتا ہوں اور نہ کرتا ہوں بلکہ میرے پاس اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ڈھیر سارے دلائل اور تاریخی ثبوت بھی موجود ہیں اور اس موضوع پر کسی سے بھی بحث اور مکالمہ کے لیے ہر فورم پر ہمہ وقت تیار ہوں۔

بہرحال آج کے کالم میں صرف ہنر وکمال یا بالفاظ دیگر فنی تعلیم کے بارے میں خوشحال خان خٹک کی تعلیمات انہی کے چند اشعار کی روشنی میں پیش کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آج دنیا کی ترقی کا پیمانہ اور اشاریہ یکسر بدل چکا ہے آج یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی قوم تعداد میں یعنی مردم شماری کے لحاظ سے کتنی زیادہ ہے، یا اس کے پاس کتنا جدید اسلحہ ہے،کتنی زیادہ زمین اور علاقہ ہے، جسمانی لحاظ سے کتنی مضبوط اور توانا ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قوم کے پاس کتنی جدید ٹیکنالوجی ہے وہ جدید سائنس اور جدید علوم سے کتنی بہرور ہے اور دنیا کی ترقی اور تہذیب میں کتنا اور کس قدر اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس بات کا شعور اور درس آج سے 336سال قبل خوشحال خان خٹک نے اپنی قوم کو دیا ہے کہ

جھانونہ سہ لگ نہ دی

تہ ئے نہ وینے نادانہ

گورہ سو دی ھسے زمکے

گورہ سو ھسے آسمانہ

آپ کی نظروں سے اوجھل ہیں ورنہ کتنے زیادہ جہان ہیں،جتنی زمینیں ہیں اتنے ہی آسمان ہیں۔

کہ پہ ملک چرے پیدا شی ہنرور

د ھغہ پہ کمی سر شی بے ہنر

کہ تخت دپاسہ کینی بادشاہی کا

اخر بیا د بے ہنر خاورے پہ سر

اگر ملک میں کوئی ہنرمند پیدا ہوجائے تو اس کے خلاف بے ہنر بولتا رہتا ہے اگر تخت پر ہنرپسند بادشاہ بیٹھا ہو تو آخر کار بے ہنر کا سرنیچا ہو جاتا ہے۔

ایک دوسرے شعر میں فرماتے ہیں:

ہنرور ئے نیک سیرت بلند اختر ئے

کہ بل تاوتہ تر خپلہ زانہ خہ دے

 آپ ہنر مند، نیک سیرت اور بلند اقبال ہو چاہیے آپ کو اپنے علاوہ کوئی اور اچھا لگتا ہو۔

اسی مضمون کو اپنی ایک دوسری رباعی میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

چہ باز دے لاڑ شی چرے لہ دستہ

پہ غرہ پہ سمہ کڑے ورسپے مرستہ

ہنر ہم ھسے یو یاغی باز دے

طلب ئے نہ کڑے پہ ہمت پستہ؟

جب باز آپ کے دست و بازو سے اڑ جائے تو اس کی تلاش میں اونچے پہاڑ اور ہموار زمین پر پھرتے رہتے ہو،ہنر وکمال بھی ایک باغی باز (شاہین) ہے اس کے طلب اور اپنانے میں کیوں کم ہمتی اور سستی سے کام لے رہو؟

یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں:

چا وے لار د ختو نشتہ دے آسمان تہ

ما ویل لار بہ زہ پیدا کڑم پہ ہنر

کسی نے کہا کہ آسمان تک پہنچنے کے لیے راستہ نہیں ہے، میں نے کہا وہ راستہ میں ہنر وکمال سے کام لے کر پیدا کرلوں گا۔

کہ طالع او ہنر دواڑہ سرہ کیگدی

زہ خوشحال بہ پکے ونیسم ہنر

اگر میرے سامنے کوئی طاقت (قسمت) اور ہنر رکھ دے تو میں ( خوشحال) ہنر ہی کو اپنا لوں گا۔

ہنر مند سڑے پہ ہر دیار عزیز وی

پہ ہر زائے قدر قیمت لری سرہ زر

ہنر مند انسان ہر ملک میں عزیز ہوتا ہے کہ سونا ہر جگہ قیمتی ہی رہتا ہے۔

آج کی بدلتی ہوئی عالمی اور ملکی صورت حال کی عکاسی خوشحال خان خٹک کی اس رباعی میں بھی کتنے خوبصورت پیرائے میں کی گئی ہے کہ:

پہ فتنو ڈکہ تورہ آسمانہ

لا بہ دے کلہ شی دا خونہ ورانہ

چہ بل یو نوے جھان پیدا شی

گوندے سوک بیا مومی خلاصے لتانہ

اے فتنو سے سیاہ گردش آسماں کب آپ کا گھر برباد ہوگا، تاکہ ایک نیا جہان پیدا ہوجائے اور آپ سے لوگ چھٹکارا پاسکے۔

(25 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp