GHAG

جامعہ حقانیہ پر خودکش حملہ

عقیل یوسفزئی

مشہور زمانہ دارالعلوم جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک پر جمعہ کے روز کیے جانے والے خودکش حملہ نے نہ صرف پاکستان کے مذہبی حلقوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے بلکہ اس واقعے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر خودکش بمبار کا تعلق روایتی طور پر کسی مذہبی جہادی گروپ سے تھا تو اس نے جامعہ حقانیہ جیسے اس “ادارے” کو کیسے نشانہ بنایا جو افغانستان اور پاکستان کے جہادی تنظیموں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جامعہ حقانیہ کے کردار پر مثبت یا منفی ردعمل سے قطع نظر حقیقت تو یہ ہے کہ اس دارالعلوم کا اپنا ایک مضبوط تاریخی پس منظر رہا ہے اور مذہبی حلقوں کے علاوہ طالبان وغیرہ کا یہ مضبوط مرکز رہا ہے۔

اس وقت افغانستان میں طالبان کی جو حکومت برسر اقتدار ہے اس کے اہم وزراء اور رہنما جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ افغانستان کا حقانی نیٹ ورک بھی اسی پس منظر کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ حملہ کسی بیرونی پاکستان مخالف قوت نے کرایا ہوگا تاکہ پاکستان کو مذہبی حلقوں کی نظر میں مشکوک اور متنازعہ بنایا جائے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ کچھ عرصہ قبل کابل میں حقانی نیٹ ورک کے سینئر رہنما اور افغان وزیر رحیم اللہ حقانی کو اسی ہی طرز پر جمعہ ہی کے روز خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد افغان طالبان اور ان کی حکومت کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے اور رحیم حقانی کے بھتیجے سراج الدین حقانی مزاحمت پر اتر آئے۔ اس واقعے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں حملوں کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ لگ یہ رہا ہے کہ کوئی طاقتور ہاتھ ان واقعات کے پیچھے کارفرما ہے۔

اس سے قبل جامعہ حقانیہ کے دوسرے مہتمم مولانا سمیع الحق کو بھی پراسرار طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔ جمعہ والے حملے میں ان کے صاحبزادے اور وارث مولانا حامد الحق سمیت متعدد دیگر کو شہید کیا گیا۔ طریقہ واردات بلکل کابل میں رحیم حقانی کو نشانہ بنانے والے واقعے سے مختلف نہیں ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں واقعات میں ایک ہی گروپ یا پراکسی ملوث ہے۔ پاکستان کی حکومت کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کو انتشار سے دوچار کرنے کی عملی کوشش تھی۔

جامعہ حقانیہ کے پورے ملک میں شاخیں موجود ہیں۔ اگر ان شاخوں یا مدارس نے اس واقعے کے بعد مزاحمت اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو پورا ملک انتشار سے دوچار ہوجاتا مگر منتظمین نے مجوزہ سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جس کی ستائش ہونی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حملے کا سخت نوٹس لینا چاہیے کیونکہ یہ محض 6 افراد کی شہادت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ کوئی گہری سازش لگ رہی ہے۔ یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ اسی روز بلوچستان میں بھی دہشت گرد کارروائیاں ہوئیں۔ یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان غیر ملکی وفود کے دوروں کا مرکز بنا ہوا ہے اور پاکستان خطے کے اہم کردار یا کھلاڑی کے طور پر ابھرنے والا ہے۔

(28 فروری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts