فہمیدہ یوسفی
خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ اکوڑہ خٹک میں جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے ہولناک خودکش حملے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے عفریت نے نہ صرف عام شہریوں بلکہ مذہبی شخصیات کو بھی نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اس حملے میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی سمیت کئی افراد شہید اور زخمی ہو گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، یہ حملہ فتنہ الخوارج اور ان کے پشت پناہوں کی ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی، جس کا مقصد خاص طور پر مولانا حامد الحق کو نشانہ بنانا تھا۔
حملے کے پس پردہ عوامل – نظریاتی اور سیاسی کشمکش
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا حامد الحق کو حالیہ دنوں میں مسلسل دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں، خاص طور پر جب انہوں نے رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس میں خواتین کی تعلیم کے حق میں دوٹوک مؤقف اپنایا۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان کے اندرونی دھڑے، خصوصاً قندھاری گروپ اور حقانی نیٹ ورک، اس معاملے پر شدید اختلاف رکھتے ہیں۔
قندھاری گروپ زیادہ قدامت پسند اور سخت گیر موقف رکھتا ہے، جس نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر سخت ترین پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔ چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کے اسکول جانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اور یونیورسٹی میں خواتین کے داخلے کو بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، حقانی نیٹ ورک کے بعض رہنما نسبتاً نرم مؤقف رکھتے ہیں اور خواتین کی تعلیم کے حوالے سے نسبتاً لچکدار پالیسی کے حامی نظر آتے ہیں۔ مولانا حامد الحق کا یہی موقف انہیں انتہا پسند عناصر کی نظر میں دشمن بنا گیا تھا۔
اندرونی اختلافات اور ممکنہ سازشیں
اس حملے کے محرکات صرف نظریاتی نہیں بلکہ ذاتی اور داخلی تنازعات سے بھی جڑے ہو سکتے ہیں۔ مولانا حامد الحق کا خاندان پہلے ہی قیادت اور مالی معاملات کے حوالے سے اختلافات کا شکار تھا۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق کے پراسرار قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا، اور اب ان کے بیٹے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، مولانا حامد الحق اور ان کے کزن سلمان کے درمیان شدید اختلافات تھے، اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا کے پاس اپنے کزن کی کچھ حساس نوعیت کی ویڈیوز موجود تھیں، جو ممکنہ طور پر ایک اندرونی سازش کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
پاکستان کے لیے سبق – امن کی راہ کیا ہے؟
یہ حملہ ہمیں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ شدت پسند عناصر نہ صرف ریاستی استحکام بلکہ اپنے ہی نظریاتی حلقوں میں بھی تصادم اور بدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔ جو گروہ خود ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے، وہ معاشرے میں امن اور ترقی کے لیے کیسے کام کر سکتے ہیں؟
پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ مذہب اور سیاست کے نام پر کی جانے والی انتہا پسندی اور داخلی انتشار کو مسترد کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف بیانیے کو مزید مضبوط بنایا جائے اور شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں پائیدار امن اور استحکام ممکن بنایا جا سکے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی اپنی تحریر ہے اور ادارے کا لکھاری/تجزیہ کار کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں
(28 فروری 2025)