GHAG

جنید اکبر اور دیگر سے بتول راجپوت ہزار درجے زیادہ معزز اور قابل احترام

عقیل یوسفزئی

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر خان نے تمام سیاسی اور اخلاقی حدود پار اور پامال کرتے ہوئے پاکستان کی معتبر اور پروفیشنل اینکرپرسن اور تجزیہ کار بتول راجپوت کو ان کے ساتھ کیے گئے ایک انٹرویو کے ردعمل میں فون کالز کرتے ہوئے نہ صرف دھمکیاں دی ہیں بلکہ ایک معزز خاتون اور ذمہ دار میڈیا پرسن کو نازیبا الفاظ سے بھی مخاطب کیا ہے۔ موصوف نے بتول راجپوت سمیت متعدد دیگر پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگائے ہیں جس پر صحافتی تنظیموں، میڈیا پرسنز اور سنجیدہ سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید نوعیت کا مذمتی ردعمل سامنے آرہا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اخلاقی اور سماجی سطح پر بتول راجپوت جنید اکبر خان اور ان جیسے بے شمار دیگر سے نہ صرف ہزار درجے بہتر ہیں بلکہ وہ دوسروں کی عزت کرنا بھی جانتی ہیں اور اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں اور حدود و قیود سے بھی باخبر ہیں۔ اگر اخلاقیات کے شدید “فقدان” بلکہ “قحط الرجال” کا کسی پارٹی اور لیڈرشپ کا “اعزاز” کسی کو حاصل ہے تو وہ جنید اکبر اور ان جیسے وہ نام و نہاد لیڈرز ہیں جنہوں نے پوری ایک نسل کو سیاست اور اظہار رائے کے نام پر اخلاق طور پر برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ جو لیڈر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے دوسروں کے بچوں کی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کرتے ان سے اخلاقیات اور سیاسیات کی توقع کیسے کی جاسکتی ہیں۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے لیڈر ایک دوسرے پر کھلے عام اپنی ہی پارٹی کی خواتین کو ذاتی مفادات کے لیے ایک “ہتھیار” کے طور پر استعمال کرنے کے الزامات لگاتے آرہے ہیں اور ایسا کرنا ان کے ہاں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کو ایک “کریڈٹ ” کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے صوبائی صدر کو بتول راجپوت کو اخلاقیات کا “درس” دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ موصوف کی پارٹی نے متعدد بار خواتین لیڈروں کے علاوہ اپنی حامی خواتین صحافیوں اور یوٹیوبرز وغیرہ کو خیبرپختونخوا کے وسائل سے جس انداز میں “نوازا” ہے جنید اکبر ذرا جرات کرکے اس کا ذکر بھی کریں تاکہ پتہ چلے کہ ان کا ماضی کتنا “شاندار” رہا ہے اور ان تمام “مشاغل” کے دوران جنگ زدہ صوبےخیبرپختونخوا کے وسائل کا کس پیمانے پر استعمال کیا گیا۔

بتول راجپوت کو طعنے دینے اور ان پر الزامات لگانے سے قبل اگر موصوف اپنے حامی میڈیا پرسنز سے اپنی پارٹی کے خواتین اور میڈیا سے متعلق “شاندار خدمات” کی تفصیلات معلوم کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور شاید ان کی عزت بھی رہ جاتی۔ اگر پی ٹی آئی کی پولیٹیکل کلچر کو دیکھا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ جنید اکبر نے یہ سب کچھ کرکے صوبائی صدر کی حیثیت سے اپنے بانی چیئرمین کے “انتخاب” کو بالکل درست ثابت کردیا ہے ورنہ اسی  مالاکنڈ ڈویژن ہی سے ان کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کا بھی تعلق ہے جس سے جنید اکبر تعلق رکھتے ہیں۔ کسی نے میڈیا یا مخالفین کے بارے میں بیرسٹر گوہر سے ایسے الفاظ کھبی نہیں سنے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس پارٹی میں اکثر مواقع پر مس فٹ لگتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس تمام تر افسوسناک صورتحال کے تناظر میں اس بات کا اعتراف بھی لازمی ہے کہ اگر پاکستان کے صحافتی تنظیمیں فعال ہوتیں اور اکثر صحافتی رہنما “مراعات یافتہ” نہ ہوتے تو جنید اکبر جیسے غیر معروف سیاسی رہنماؤں کو اس نوعیت کی ہٹ دھرمی اور بدتمیزی کی کبھی جرات نہ ہوتی۔ اکثر مالکان بھی صحافتی ادارے اپنے کاروبار اور مفادات کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں اس لیے وہ بھی کسی کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ایسے میں جو ہورہا ہے وہ خلاف توقع نہیں تاہم جینوئن لوگ بتول راجپوت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر ایسے مواقع پر کھڑے رہیں گے کیونکہ تمام تر کمزوریوں اور رکاوٹوں کے باوجود معاشرے کو جنید اکبر جیسے “عناصر” کی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

(3 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts