GHAG

یہ کوتاہی یا منصوبہ بندی؟

روخان یوسفزئی

گزشتہ ماہ جب امریکا کے ایک اہم سفارتکار پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے یہ انکشاف اور اعتراف کیا تھا کہ جب امریکا افغانستان سے نکل رہا تھا تو جاتے جاتے 7 ارب ڈالر کے جدید ہتھیار بھی چھوڑ گیا تھا۔ کیوں چھوڑ گیا تھا کس لیے چھوڑ گیا تھا؟ اس پر بھی جتنے منہ اتنی زبانیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسی لفظ “چھوڑ” ہی میں کوئی”چور” نظر آرہا ہے۔کیا یہ کسی غلطی یا غفلت کا نتیجہ تھا کہ امریکا جیسے ہوشیار، دوراندیش اور چالاک ملک اتنے قیمتی جدید ہتھیار جاتے ہوئے چھوڑ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے:

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟

 لہذا اسے کوئی بھی ذی شعور انسان امریکا کی غفلت،کوتاہی یا جلدبازی سے تعبیر کرنے کو تیار نہیں البتہ اگر اسے امریکا کا آئندہ کے لیے کوئی منصوبہ کا نام دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ امریکا کا یہ منصوبہ کس کے خلاف سمجھا جائے۔ لگتا تو یہی ہے کہ یہ قیمتی جدید ہتھیار افغانستان کی جھولی میں اس لیے چھوڑے گئے ہیں تاکہ پاکستان کے خلاف کام آسکے، یہ کوئی معمولی واردات یا منصوبہ نہیں۔کیونکہ امریکا جو اسلحہ ا ور فوجی سازو سامان چھوڑ کر گیا ہے، اس کی مالیت 7 ارب ڈالر سے زیادہ بتائی جارہی ہے، جبکہ ہمارے پاکستان کا کُل دفاعی بجٹ چھ ارب ڈالر ہے، یعنی پاکستان کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ مالیت کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا، جس سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں رہتا۔

پینٹاگون کی جانب سے امریکی کانگریس کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق امریکا افغانستان میں 7 اعشاریہ 2 ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازو سامان چھوڑ کر گیا ہے جس میں جہاز، ہیلی کاپٹر، گولہ بارود، نائٹ ویژن چشمے اور بائیومیٹرک ڈیوائسز شامل ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق امریکا افغانستان میں 78 ہیلی کاپٹرا ور جنگی جہاز چھوڑ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ اڑان بھر کر واپس نہیں جا سکتے تھے؟ ان کو چھوڑ جانے میں کیا حکمت تھی؟

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کو افغانستان میں 61 ہزار امریکی فوجی گاڑیاں ، 3 لاکھ لائٹ ویپن (چھوٹی مشین گنیں اور رائفلیں وغیرہ) اور 26 ہزار ہیوی ویپن (بڑا اسلحہ) ملے ہیں۔ یہ اتنا بھاری اور قیمتی اسلحہ کیا کوئی آج کے دوست اور کل کے دشمن کے پاس غلطی سے چھوڑ کر جاتا ہے؟

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

امریکا افغانستان سے ایک معاہدہ کر کے نکلا ہے، ایسا نہیں کہ رات کو انکے فوجی اہلکار سورہے ہوں اور انہیں اچانک بھاگنا پڑا ہو۔ جب آپ معاہدہ کر کے نکلتے ہیں تو اپنا سازو سامان ساتھ لے جانے کا انتظام بھی کرتے ہی،  امریکا نے یہ انتظام کیوں نہیں کیا؟

اب جب ہم دن میں اٹھارہ اٹھارہ شہداء کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا یہ سب ایک غلطی تھی ، اتفاق تھا یا یہ ایک منصوبہ تھا کہ اسلحہ چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکے؟

فارن پالیسی میگزین کے مطابق امریکا کے چھوڑے گئے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں بھی دستیاب ہیں۔ سب سے زیادہ مانگ امریکا کی M-4 سالٹ رائفل ہے، یہ وہی رائفل ہے جو اس وقت پاکستان کے خلاف بلوچستان میں استعمال ہو رہی ہے۔ معاملہ صرف اس ایک رائفل کا نہیں ہے ، بلکہ بلوچستان میں جو عناصر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کے پاس بھی اب جدید ہتھیار ہیں جو امریکا افغانستان میں چھوڑ کر گیا ہے۔

پاکستان کے خلاف اس دورانیے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے تو یہ بے سبب نہیں ، اس میں امریکا کے چھوڑے ہوئے ان ہتھیاروں کا اہم کردار ہے۔ امن عامہ کے چیلنج کے سامنے پہلی دیوار پولیس کی ہوتی ہے اور پولیس کے سامنے جب سپر پاور کے اسلحے سے لیس عناصر ہوں تو پولیس کے لیے اس سے نپٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔

امریکی صدرٹرمپ نے بھی ان ہتھیاروں کا سوال اٹھایا ہے اور بائیڈن انتظامیہ پر اس حوالے سے سخت تنقید بھی کی ہے کہ اس نے اتنا بھاری اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑا ہے۔

یہ اتفاق نہیں ہے کہ گذشتہ سال بلوچستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے۔ بلوچستان حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس ایک سال میں دہشت گردی کے 555 واقعات میں 300 لوگ جاں بحق ہوئے جن میں عام شہری ،پولیس اہلکار اور فوجی شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے اب یہ بہت بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے کہ اس ساری صورت حال سے کیسے نمٹا جا سکے۔پاکستان کے لیے اس پر خاموش رہنا ممکن نہیں رہا۔ ایک ایک دن میں اگر ہمارے 18، 18 جوان شہید ہونے لگیں تو اس پر ریاست خاموش رہ بھی کیسے سکتی ہے؟ (حیرت کی بات ویسے یہ بھی ہے کہ حقوق انسانی کے نام پر ہر وقت اپنی ہی ریاست کے خلاف فرد جرم عائد کرنے والے خواتین و حضرات ان شہادتوں پر یوں گونگے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ رویہ بھی غور طلب ہے اور اس پر بھی تفصیلی بات ہونی چاہیے)۔

امریکہ کے اپنے ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کا چھوڑا ہوا یہ اسلحہ پورے خطے کو کسی الاؤ میں دھکیل سکتا ہے۔ اسلحے کی نئی بلیک مارکیٹ وجود میں آ جانے کی باتیں بھی پاکستا ن نہیں، مغربی ممالک اب خود کر رہے ہیں۔ انہی ممالک کے غلط فیصے ہوتے ہیں جن کا تاوان ہم جیسے ممالک کو دینا پڑتا ہے۔ امریکہ سے ہر فورم پر یہ سوال ہونا چاہیے کہ7 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا یہ اسلحہ جو تم چھوڑ گئے ، یہ جلدی، غفلت یا منصوبہ تھا؟

(4 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts