اے وسیم خٹک
بنوں کی سرزمین ایک بار پھر خون میں نہا گئی۔ ننھی فریال، موسیٰ، نازمینہ، خیبہ اور معصوم صفی اللہ کی بے جان لاشیں اس سوال کے ساتھ پڑی ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا؟ وہ کون سی خطا تھی جس کی پاداش میں ان معصوموں کی زندگیاں چھین لی گئیں؟
یہ سوال صرف ان کے لواحقین کے نہیں، پورے ملک کے عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔ گھروں کی چھتیں، دیواریں اور کھڑکیاں گرنے سے جو بے گناہ شہری زخمی یا شہید ہوئے، ان کے اہل خانہ کو کیا حکومت کوئی جواب دے سکتی ہے؟ مسجد کے ملبے تلے دبے نمازیوں کا حساب کون دے گا؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہوئے؟ اگر صوبے میں دہشت گرد موجود ہیں تو حکومت اس سے لاعلم کیوں ہے؟ کیا یہی وہ لوگ نہیں جنہیں معافی کا اعلان کرکے صوبے میں بسایا گیا؟ کیا کوئی ان معصوم شہداء کے اہل خانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دے سکتا ہے؟
گزشتہ روز پاک فوج نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے 14 میں سے 11 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگا دیا، مگر جو لوگ مسلسل ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے آئے، وہ کب جوابدہ ہوں گے؟ مسجد میں شہید ہونے والے معصوم شہریوں کا حساب کون دے گا؟ دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے کوئی سوال کیوں نہیں کیا جا رہا؟
مصدقہ اطلاعات کے مطابق زندہ بچ جانے والے دہشت گردوں کے افغانستان سے رابطے ہیں، اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک کلیئرنس آپریشن جاری رہا ایسے میں کچھ عناصر جو ملک میں انتشار پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، وہ براہ راست فوج پر تنقید کر رہے ہیں۔ حملہ خیبرپختونخوا میں ہوا، نشانہ یہاں کے عوام بنے، حکومت بھی اسی صوبے کی ہے، لیکن نشانہ پاک فوج کو بنایا جا رہا ہے۔
یہی وہ سازشی ٹولہ ہے جو برسوں سے اس صوبے پر مسلط رہی، جس نے اُن عناصر کو جگہ دی، ان کے لیے مذاکرات کی باتیں کیں، انہیں واپس بسانے کا منصوبہ بنایا۔ مگر جب بے گناہ شہریوں کے جنازے اٹھے، جب معصوم بچوں کی لاشیں خون میں نہلا دی گئیں، تو اس کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ وہ آگ ہے جسے ہوا دی جا رہی ہے، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ جب پھیلے گی تو کسی کا گھر سلامت نہیں رہے گا۔
(8 مارچ 2025)