GHAG

دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ گلوبل ٹیررزم انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ 2024 میں دہشت گردی کے نتیجے میں اموات 45 فیصد بڑھ گئیں، جبکہ حملوں کی تعداد دُگنی سے زیادہ ہو گئی۔ ان حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پیش پیش رہی، جبکہ داعش، القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر چھوٹے، بڑے، معروف اور غیر معروف عسکریت پسند گروہ بھی متحرک ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ان کارروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، جہاں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز، پولیس، فوجی تنصیبات، عام شہریوں، سرکاری عمارتوں اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان بڑھتے ہوئے حملوں نے ملک میں شدید عدم استحکام پیدا کیا ہے، جس کے پیش نظر ایک جامع اور مؤثر انسدادِ دہشت گردی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، کالعدم ٹی ٹی پی کے کئی جنگجو افغان جیلوں سے رہا ہوئے، جبکہ عمران حکومت میں ایک غلط حکمت عملی کے تحت پاکستان سے بے دخل کیے گئے ہزاروں دہشت گردوں کو افغانستان سے واپس لا کر خصوصاً خیبر پختونخوا میں بسایا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی کارروائیاں مزید منظم اور خطرناک ہوگئیں۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جن میں عام شہریوں، پولیس اور فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان نے بارہا افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں پاکستان میں حملے کرنے سے روکیں، مگر کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ افغان حکومت مسلسل یہ مؤقف دہراتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، لیکن حقیقت میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اب بھی قائم ہیں اور سرحد پار سے حملے جاری ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید کشیدہ ہو رہے ہیں۔

بلوچستان میں بھی دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جہاں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر علیحدگی پسند گروہ فوجی تنصیبات، چینی کارکنوں اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان گروہوں کا مؤقف ہے کہ وہ قومی علیحدگی اور بیرونی اثر و رسوخ کے خلاف لڑ رہے ہیں، تاہم، ان کے حملے پاکستان کی سلامتی کی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی بڑے خودکش حملے اور بم دھماکے ہوئے ہیں، جن میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والا خودکش حملہ، جس میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے، بلوچستان میں دو بڑے خودکش حملے، جن میں درجنوں افراد مارے گئے، شمالی وزیرستان میں فوجی چوکی پر حملہ، بنوں میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس چوکیوں پر مسلسل حملے  اور دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں ہونے والا خوفناک خود کش  بم دھماکہ، یہ سب دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا واضح ثبوت ہیں۔ ان حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عسکریت پسند گروہ دوبارہ متحرک ہو چکے ہیں اور ملک کو سنگین سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی خطے، اپنی منفرد ثقافت اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ہمیشہ قومی دفاع میں اہم رہے ہیں۔ یہاں کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ مقامی افراد نے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی جانیں قربان کیں۔ تاہم، ان علاقوں میں ایسے عناصر بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے دہشت گردوں کو پناہ اور وسائل فراہم کیے، جس سے ریاست کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ قبائلی رہنماؤں کا کردار ماضی میں امن قائم رکھنے میں مؤثر رہا ہے، مگر اب انہیں حکومتی سطح پر مزید فعال شراکت دار بنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، صحت اور معاشی ترقی کے منصوبے ان علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2,670 کلومیٹر طویل سرحد (ڈیورنڈ لائن) کی جغرافیائی پیچیدگی کی وجہ سے دہشت گرد گروہوں اور اسمگلرز کو محفوظ پناہ گاہیں ملتی ہیں۔ 2001 میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد، کئی عسکریت پسند گروہ پاکستان منتقل ہو گئے اور یہاں اپنی خفیہ کمین گاہیں بنا لیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے منشیات، اسلحہ اور دیگر غیر قانونی اشیاء کی اسمگلنگ کے لیے مرکزی راستے رہے ہیں، جس سے دہشت گرد گروہوں کو مالی معاونت حاصل ہوتی رہی ہے۔ پاکستانی فوج اور سیکیورٹی ادارے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں، مگر ان عناصر کی مکمل سرکوبی کے لیے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں “آپریشن ضربِ عضب” اور “آپریشن رد الفساد” جیسے اقدامات نے دہشت گردوں کو کمزور ضرور کیا، مگر وہ اب دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کو ایک ایسی جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو ان گروہوں کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ یقینی بنائے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کو صرف فوج اور ریاستی اداروں کی ناکامی سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ بلا شبہ، مختلف ادوار میں غلط پالیسیاں اپنائی گئیں اور بعض اقدامات نے شدت پسندی کو تقویت دی، لیکن یہ مسئلہ صرف ریاست تک محدود نہیں ہے۔ ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام نے بھی اس میں کس حد تک کردار ادا کیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں عوام کی طرف سے ایسے شدت پسند عناصر کو حمایت ملی، جنہوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی اور ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کی۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بارود سے بھرے ٹرکوں کا بنوں تک پہنچنا مقامی سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے، ان کی نقل و حرکت اور ان کے وسائل کی دستیابی میں مقامی سطح پر سہولت کاری ایک بنیادی مسئلہ ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر عوام مکمل طور پر ان عناصر کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور ان کے لیے زمین تنگ کر دیں، تو شدت پسندی کے خاتمے میں نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہ جنگ صرف فوج اور ریاستی ادارے نہیں جیت سکتے، جب تک عوام بھی اس میں اپنا کردار ادا نہ کریں۔ جب تک عوام، خاص طور پر ان علاقوں کے مقامی لوگ، دہشت گردوں کو پناہ دینے، ان کی مدد کرنے یا ان سے ہمدردی رکھنے کی روش ترک نہیں کرتے، تب تک شدت پسندی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اس لیے ایک اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ہر شہری اپنی ذمہ داری سمجھے اور دہشت گردی کے خلاف ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان کو اپنی سفارتی کوششیں تیز کرنا ہوں گی تاکہ افغانستان پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ، انٹیلیجنس نیٹ ورک کو مزید فعال اور سرحدی حکمت عملی کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد پار دہشت گردی کو روکا جا سکے۔

دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ریاست کو مقامی عوام کو اپنی حکمت عملی میں شامل کرنا ہوگا۔ حکومت کو ان کے دیرینہ مسائل، جیسے کہ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، روزگار کے مواقع کی کمی اور تعلیمی پسماندگی پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ اگر قبائلی علاقوں کے عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں فراہم کی جائیں تو وہ دہشت گردوں کے اثر و رسوخ سے باہر آ سکتے ہیں اور ریاست کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ صرف عسکری کارروائیوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ مقامی عوام کو ساتھ لے کر، ان کے مسائل حل کر کے اور انہیں پاکستان کے استحکام کا حقیقی شراکت دار بنا کر دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

(10 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts