روخان یوسفزئی
صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ:
چہ زما پہ خیلخانہ پہ اولس وشول
وہ دے نہ شی پہ ہندو پہ مسلمان
مطلب جو ظلم و زیادتی میرے خاندان اور قوم کیساتھ کی گئی وہ کسی بھی ہندو اور مسلمان کیساتھ نہ ہو پائے۔
یہ شعر ہمارے صوبہ خیبرپختونخوا پر بالکل صادق آتا ہے کہ یہاں روزانہ دہشت گردی کے ایسے اندوہناک اور افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں جسے دیکھ کر یا سن کر انسان کا کلیجہ پٹھتا ہے۔
چار مارچ کو بنوں کنٹونمنٹ میں دہشت گردی کا وحشت ناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک ہی گھر کے پھول جیسے معصوم بچے تڑپ تڑپ کر شہید کردیے گئے اور وہ بھی رمضان کے اس مقدس مہینے اور عین افطاری کے وقت، انسان دشمن درندوں نے ایسا حملہ کیا جسے دنیا کا کوئی بھی مذہب اور معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ بہرحال گزشتہ کئی سالوں سے خیبرپختونخوا مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب یہاں سے کسی ناخوش گوار واقعے کی اطلاع نہ آتی ہو۔ دہشت گردی کے ناسور نے ملک میں دوبارہ سر اٹھایا ہوا ہے، پاکستان اس ناسور کا بوجھ اٹھا کر ہی نئے سال میں داخل ہوا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں،وہ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل انٹیلی جنس بیسڈ فوجی آپریشنز کررہے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مصروف عمل ہیں۔ تاہم ان کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔
اس کی وجوہات بھی کسی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واپس آنے کی اجازت دینا اور ان کی آبادکاری میں سرکاری طور پر ہر قسم مدد فراہم کرنا،ایک بھیانک غلطی ثابت ہوئی جسکی قیمت سینکڑوں جانوں کی صورت میں ادا کی گئی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اب بھی افغانستان کی عبوری حکومت کیساتھ مذاکرات کے لیے پر تول رہی ہے۔ اگرچہ آئی ایس پی آر کے مطابق خفیہ اداروں کی تحقیقات میں واضح طور پر ثابت ہوا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں افغان شہری براہ راست ملوث تھے۔ شواہد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں موجود خوارج کے سرغنہ کررہے تھے۔
اقوام متحدہ بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کرچکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد حملے بڑھنے کی وجہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے افغان طالبان کی مسلسل مالی اور لاجسٹک مدد ہے۔کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے۔ 2024ءکے دوران پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے گئے اور افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ بھاری رقم فراہم کررہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار،خوست اور پکتیکا میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ مگر ان حقائق اور انکشافات کے باوجود خیبرپختونخوا کی حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ افغان عبوری حکومت سے مذاکرات کیے جائیں جس کے لیے وفاقی حکومت سے اپنے ٹی او آرز (قواعط و ضوابط) کی منظوری پر بھی زور دے رہی ہے۔
پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ”زہ درنہ پوزہ پریکوم او تہ پیزوان غواڑے۔یعنی میں آپ کی ناک کاٹ رہا ہوں اور آپ مجھ سے نتھ مانگ رہی ہو۔” اب تو یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت، انتظامیہ کی کارکردگی، صلاحیت،اہلیت اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا عزم کتنا مضبوط اور جاندار ہے؟ خیبر پختونخوا میں سیاسی بیانیہ ہو یا مذہبی بیانیہ، کئی نظریاتی کمزوریوں کا شکار نظر آتا ہے۔ جبکہ علاقائی مفادات اور علاقائی نفسیات اور علاقائی طبقاتی تقسیم نے بھی انتہاپسند بیانیے کی بقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے علاوہ مین سٹریم بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی کاؤنٹر سیاسی بیانیہ تشکیل دیا اور نہ ہی نظریاتی طور پر اپنے کارکنوں کی تربیت کی ہے۔ محض بیانات دینے سے انتہاپسندی کا کلچر اور نفسیات ختم نہیں کی جاسکتی۔
لہذا یہ جنگ اکیلے سیکورٹی فورسز یا پولیس کی نہیں بلکہ یہ ہماری ریاست ،ہمارے نظریے،ہمارے تہذیب و تمدن، کلچر اور معیشت کے خلاف جنگ ہے جسے سب کو مشترکہ طور پر لڑنا ہوگا ورنہ:
اب کے پانی کا جو ریلا آئے گا تم دیکھنا
سنگ ریزے چھوڑ دے سیپیاں لے جائے گا
(10 مارچ 2025)