GHAG

دہشتگردی کے واقعات،جعلی ویڈیوز اور غلط معلومات اور عوام کی ذمہ داری

اے وسیم خٹک 

پاکستان میں جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے، غیر ملکی میڈیا، خاص طور پر بھارتی ذرائع ابلاغ، اور ملک کے اندر بعض اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر اور سوشل میڈیا کے سرگرم افراد فوری طور پر پروپیگنڈا کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یہ گروہ ماضی میں بھی مختلف واقعات کی ویڈیوز کو اس انداز سے جوڑتے رہے ہیں کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں دھوکہ کھا جاتا ہے، اور بڑے بڑے صحافی بھی اس دھوکے کو پہچان نہیں پاتے اور شیئر کر دیتے ہیں، جو بعد میں وائرل ہو جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر، 11 مارچ 2025 کو بلوچستان کے ضلع بولان میں پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد، غیر مصدقہ اور گمراہ کن معلومات پھیلانے کے لیے پرانی اور جعلی ویڈیوز کا استعمال کیا گیا۔ ان میں 2022 کی ایک فلم کا ویڈیو کلپ بھی شامل تھا، جسے حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ دہشتگردی کے واقعات کے بعد جعلی ویڈیوز کا استعمال کیا گیا ہو۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں غلط معلومات اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر، نومبر 2023 میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی خبریں سب سے پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نشر کی جاتی ہیں۔ یہ اکاؤنٹس دہشتگردانہ واقعات سے قبل ہی وارننگ جاری کرتے ہیں اور حملوں کے دوران ایسی ویڈیوز نشر کرتے ہیں جو دہشتگردوں کے موبائل سے بنی ہوتی ہیں۔ ان اکاؤنٹس کا مقصد جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے عوام میں ہیجان اور انتشار پھیلانا ہے۔

عالمی اداروں نے بھی پاکستان میں فیک نیوز کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً، فیک نیوز واچ ڈاگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران من گھڑت خبروں نے تباہ کن کردار ادا کیا، جس سے پاکستان کا عالمی سطح پر چہرہ مسخ ہوا۔

عوام کو چاہیے کہ وہ ان جعلی ویڈیوز سے دور رہیں اور معتبر صحافیوں یا ویب سائٹس پر بھروسہ کریں تاکہ غیر ملکی اور انتشاری عناصر کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غلط معلومات نقصان دہ ہو سکتی ہیں اور انہیں دوسروں تک پہنچانے سے پہلے یہ تصدیق کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ مصدقہ ہیں یا نہیں۔ اس سلسلے میں معلومات کے ذرائع اور تواریخ کا جائزہ لینا بھی اہم ہے۔ مزید برآں، اگر کوئی ویڈیو، پوسٹ یا لنک مشکوک لگے تو ممکن ہے کہ وہ اصل میں ‘فیک نیوز’ کا باعث ہو۔ لہٰذا، صداقت پر شک ہو تو اسے شیئر نہ کریں۔

(13 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts