GHAG

پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی: ریاستی پالیسی اور عوامی ردعمل

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

خیبر پختونخوا خصوصاً ضلع بنوں اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ملک بھر میں سیکیورٹی خدشات کو جنم دیا ہے۔ حالیہ دہشت گرد حملے میں بلوچستان میں ایک مسافر ٹرین کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کئی معصوم شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سیکیورٹی فورسز نے کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا، اور خبروں کے مطابق تمام یرغمالی بازیاب کروا لیے گئے، جبکہ تمام دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ لیکن اس واقعے نے ریاست کی انسدادِ دہشت گردی پالیسیوں پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں بھی دہشت گردوں کی کارروائیاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں، جہاں نہ صرف سیکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں بلکہ عام شہری بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان حملوں کے بعد ایک اور تشویشناک پہلو وہ عناصر ہیں جو سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلا کر دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کے خلاف بھی سخت کارروائی ناگزیر ہے تاکہ شدت پسندی کے بیانیے کو تقویت نہ ملے۔

بنوں کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جو ماضی میں بھی دہشت گردی کا مرکز رہے ہیں۔ یہاں فوجی آپریشنز کیے گئے اور کئی شدت پسند گروہوں کو بے دخل بھی کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے حالات ایک بار پھر خراب ہو رہے ہیں۔ بنوں کا جغرافیہ اور اس کے گرد وہ علاقے جو کبھی طالبان کے قبضے میں تھے، اب دوبارہ شدت پسندوں کی پناہ گاہیں یا گزر گاہیں بن رہے ہیں۔ مقامی آبادی دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر شدت پسند ہمارے علاقوں سے ہماری کسی اجازت یا معاونت کے بغیر بھی گزرتے ہیں، تو ہم سیکیورٹی فورسز کا نشانہ بنتے ہیں، اور اگر ہم ریاستی اداروں کی حمایت کرتے ہیں، تو شدت پسند ہمیں نشانہ بناتے ہیں۔ یہ مخمصہ ریاستی پالیسی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، جو تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے کئی تاریخی، جغرافیائی، اور معاشرتی عوامل کارفرما ہیں۔ سوویت-افغان جنگ کے دوران عسکریت پسندی کو فروغ دیا گیا، اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عالمی طاقتوں کی مدد سے مجاہدین کو منظم کیا گیا، جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ نائن اليون کے بعد جب پاکستان نے طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائیاں شروع کیں، تو شدت پسند گروہوں نے مقامی حمایت حاصل کرنا شروع کر دی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا قیام 2007 میں عمل میں آیا، اور اس کے بعد ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی نے کالعدم ٹی ٹی پی کو مزید مضبوط کیا، جس کے بعد ان کے حملوں میں تیزی آ گئی۔

معاشرتی اور اقتصادی مسائل بھی شدت پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی کمی، بے روزگاری، اور تعلیمی فقدان کی وجہ سے نوجوان شدت پسند گروہوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں ان محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر نوجوانوں کو اپنی صفوں میں بھرتی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ بھی دہشت گرد گروہوں کے مالی وسائل مہیا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔ بعض مذہبی تعلیمی اداروں میں شدت پسندی کے بڑھتے رجحانات اور داعش خراسان (ISKP) جیسے گروہوں کی موجودگی بھی دہشت گردی کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے۔

پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں، لیکن مسئلہ محض فوجی کارروائیوں سے حل نہیں ہوگا۔ ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے، شدت پسندی کے بنیادی اسباب کو ختم کیا جائے، اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرائع کو روکا جائے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مقامی سطح پر امن قائم کرنے میں عوامی قیادت کو بھی شامل کرے۔ مقامی آبادی امن و استحکام کے قیام میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ متعدد مرتبہ بنوں پاسون نے امن کے لیے بڑے بڑے مارچ کیے ہیں۔ معروف سیاسی اور سماجی رہنما دلنواز خان کی قیادت میں قائم بنوں تحفظ موومنٹ نے بھی ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کسی خوارج کو یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ ان کے ملک میں آ کر عوام کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی فورسز یا معصوم شہریوں پر دہشت گردانہ حملے کریں؟

دلنواز خان اور ان جیسے تمام بااثر افراد کو اعتماد میں لیا جائے جو عوام میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور اپنے طویل تجربے کی بدولت علاقے کے مزاج اور مسائل کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں۔ یہ افراد ان مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں اور عوام و ریاست کے درمیان اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بنوں امن پاسون اور بنوں تحفظ موومنٹ جیسے عوامی پلیٹ فارمز کو امن کے قیام کے لیے مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

عوام میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ریاستی اقدامات ناکافی ہیں اور دہشت گرد اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ فوج جیسے مستحکم ادارے سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے مؤثر حکمت عملی اختیار کریں اور عوام کو تحفظ کا احساس دلائیں۔ کچھ مقامی لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ یونیفارم میں ملبوس سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کا امن و امان کے قیام کے لیے خیرمقدم کیا اور ان کی حمایت کی ہے۔ تاہم، جو افراد عام لباس میں ناکے لگاتے ہیں، عوام کی تلاشی لیتے ہیں، اور جن کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے، ان کے بارے میں عوام کو شدید تحفظات ہیں اور ان میں بے اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کا فوری نوٹس لے کر اس کا فوری سدباب کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس صورت حال سے دہشت گرد بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عوام کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ حکومتی اہلکار ہیں یا غیر ریاستی عناصر۔

پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ صرف فوجی آپریشنز سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک طویل المدتی حکمت عملی درکار ہے، جس میں تعلیمی اصلاحات، اقتصادی ترقی، اور سماجی استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ اور یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو اپنے سیاسی یا ذاتی ایجنڈوں کے لیے عوام کو گمراہ کرنے کی غرض سے جھوٹے بیانیے بنا کر خصوصاً سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔ اگر آج فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے، تو دہشت گردی کی یہ لہر مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور ملک کے امن و استحکام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں، سیکیورٹی اداروں، اور سول سوسائٹی کو مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایسے المناک واقعات سے بچا جا سکے۔

(13 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts