اے وسیم خٹک
پختون صرف جنازوں پر افسوس کریں گے؛ آج کسی پختون کا جنازہ ہے، کل کسی اور کا اور شاید پرسوں ہم کسی کے پختون کے کندھوں پر ہوں گے اور امن کا نام و نشان کہیں مٹ جائے گا۔ یہ الفاظ گہری مایوسی اور درد کا اظہار کرتے ہیں جو صدیوں سے جاری تنازعات اور خونریزی نے ایک پوری قوم کے دلوں میں بسا رکھا ہے۔
آج، 15 مارچ 2025 کو، ایک اور افسوسناک واقعہ نے ہمیں اس تلخ حقیقت کا احساس دلایا ہے کہ وقت کے ساتھ پرانے زخم اور تنازعات میں نیا رخ آ چکا ہے۔ حالیہ تشدد کی لہر نے بے گناہوں کی جانیں لے کر مقامی لوگوں کو رنجیدہ کر دیا ہے۔ آج کے تازہ واقعے نے صرف امن کی نازک فضا کو دھچکہ دے دیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیاہے کہ جب تک سماجی ہم آہنگی اور معقول سیاسی حل کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا، یہ دکھ اور المیے کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
مفتی منیر شاکر (مرحوم) کی زندگی اور ان کے اعمال کا تذکرہ اسی دردناک تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ مفتی منیر شاکر کرم ایجنسی (ضلع کرم) میں پیدا ہوئے اور پشاور و کراچی کے معروف دیوبندی مدارس سے درس و تدریس حاصل کی۔ ان کی ابتدائی زندگی پر پنج پیری اور پرویزی نظریات کا گہرا اثر رہا، جس نے ان کی سوچ اور فکری پہلوؤں کو منظم کیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ علماء کے ساتھ گہرے اختلافات نے ان کو ایک الگ دائرہ کار اپنانے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے اپنے نظریاتی اختلافات اور انتہاپسند رجحانات کی بنا پر نہ صرف مذہبی محاذ پر بلکہ سیاسی اور سماجی میدان میں بھی اپنی شناخت بنالی۔
2019ء میں متعدد حملوں کے باوجود مفتی منیر شاکر (مرحوم) زندہ رہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بعد ازاں اپنی مسجد میں ہونے والے ایک جان لیوا حملے میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔اُن کے چاہنے والے ان کی ثابت قدمی اور حق کے لیے لڑائی کو دل و جان سے سراہتے تھے؛ پورے پاکستان میں لاکھوں افراد ان کے حمایتی تھے۔ تاہم، ان کے اشتعال انگیز رویوں اور قوم پرستی کی پناہ نے تنازعات کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کے خون بہنے کے ساتھ علاقائی سطح پر ایک گہرا زخم پیدا ہو گیا۔
سن 2000ء کے ابتدائی عشرے میں مفتی منیر شاکر اور پیر سیف رحمان کے درمیان باڑہ میں شدید مسلکی لڑائی چھڑ گئی تھی جس میں دونوں جانب سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس خونریز تصادم نے علاقے کی سماجی ساخت کو بُھرم میں ڈال دیا اور مقامی بزرگوں کی مشترکہ جرگہ نے بعد میں دونوں رہنماؤں کو باڑہ سے نکال دینے کا فیصلہ کر دیا۔ باوجود اس کے کہ دونوں کے حمایتی اب بھی ان کے نظریات پر قائم تھے، ان تنازعات نے ان کی ساکھ کو ہمیشہ کے لیے متاثر کر دیا۔
حال ہی میں، جب مفتی منیر شاکر پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے پشتون قومی جرگہ (11 اکتوبر 2024) میں منظر عام پر آئے، تو عوامی حلقوں میں حیرت کی لہر دوڑ گئی۔ باڑہ میں ان کی شہرت اتنی مثبت نہیں سمجھی جاتی تھی، جبکہ پی ٹی ایم بنیادی طور پر جنگ مخالف تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ تضاد اس بات کی غماز رہی کہ ان کے نظریات اور طریقہ کار نے ایک گہرا تنازعہ پیدا کر دیا تھا جس میں نہ صرف مذہبی اختلافات بلکہ سیاسی اور سماجی رخ بھی شامل تھے۔
اسی دوران کچھ علماء موجود تھے جنہوں نے حدیث کو قرآن کے منافی سمجھ کر رد کر دیا اور ان کے نظریات کو قبول نہیں کیا۔ ان اختلافات نے مزید یہ سوال اٹھایا کہ اگرچہ مفتی منیر شاکر کو بہت سے لوگوں نے ایک بہادر اور نڈر مجاہد قرار دیا تھا، لیکن ان کا انتخاب اشتعال اور تشدد کے راستے پر چلنے کا سبب بنا جس سے ایک بڑی تعداد میں معصوم نوجوانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ نائن الیون کے بعد کی شورش میں ایک اور شخصیت نے انہیں اوور ٹیک کر کے آگے نکلنا شروع کیا، ورنہ مفتی منیر شاکر مقامی طالب کمانڈر بننے کے بھرپور امیدوار ثابت ہوتے۔
باڑہ کے علاقے میں ایک مقامی عالم دین کے طور پر مفتی منیر شاکر نے دسمبر 2004 میں لشکر اسلام کی تشکیل کی۔ اس وقت سپاہ اور ملک دین خیل قبیلوں کے افراد نے ان کی مکمل وفاداری کا اظہار کیا۔ مگر ان کے انتہاپسند نظریات اور حاجی قمبر خیل جیسے دوسرے مقامی مسلح رہنما کے ساتھ شدید اختلافات کی بنا پر انہیں صرف چھ ماہ بعد بر قمبر خیل سے نکال دیا گیا۔ ابتدائی 2005 میں مفتی منیر شاکر اور پیر سیف رحمان کے حمایتیوں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد مقامی بزرگوں کی مشترکہ جرگہ نے دونوں رہنماؤں کو باڑہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ مئی 2005 میں ایک بس ڈرائیور سے ابھرتے ہوئے منگل باغ کو لشکر اسلام کا امیر مقرر کر دیا گیا جس سے تنظیم کی سمت میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ اس کے بعد پاکستانی سیکورٹی فورسز نے وسط 2005 میں اس مسلح تنظیم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع کیا جس کے دوران حاجی رباط کا گھر منہدم کر کے مسجد میں قائم ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کو تباہ کر دیا گیا تاکہ تنظیم کی سرگرمیوں کو محدود کیا جا سکے۔ آخر کار، لشکر اسلام کو 2008 میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
مفتی منیر شاکر کی شہادت اور ان کے نظریاتی رویوں کا اثر آج بھی ایک متنازع پہلو کے طور پر موجود ہے۔ ان کے چاہنے والے انہیں ایک مدلل خطیب، جرات مند اور حق کے لیے ہمیشہ لڑنے والے مجاہد کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ status quo کو چیلنج کیا اور عزت نفس کی پاسداری کی، لیکن ان کے ایسے رویے نے بھی ان کے مخالفین اور سیاسی حلقوں کو ان کے ساتھ کام کرنے سے کترادیا۔ جیسے حال ہی میں مولانا حامد الحق پر ہونے والے حملے میں دیکھا گیا کہ بے باک اور حقیقت پسند مجاہد کو بھی پیچھے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے چلے جانے سے بہت سے دین کے چاہنے والے ایک حق پرست اور حقیقت پسند عالم دین سے محروم ہو گئے اور بہت سے پشتون ایک نڈر اور بہادر ‘مشر’ کو کھو بیٹھے ہیں۔
آخر میں یہی کہیں گے کہ مفتی منیر شاکر کی زندگی ایک پیچیدہ داستان ہے جو انتہاپسندی، تشدد اور قدیم تنازعات سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کا انتخاب، ان کے نظریات اور ان کا انجام اس بات کا گواہ ہے کہ صرف جنازوں پر افسوس کرنے سے کچھ حل نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے باہمی افہام و تفہیم اور ذمہ دار سیاسی حل کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس دردناک تاریخ کو دہرایا نہ جائے۔
(17 مارچ 2025)