GHAG

عالمی تنازعات اور ان کے نتائج میں گھرا پاکستان

بیرسٹر  ڈاکٹر عثمان علی

پاکستان اپنی جغرافیائی اور اسٹریٹیجک حیثیت کی بنا پر ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ملک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کئی بین الاقوامی تنازعات اور اتحادوں میں شامل ہونا پڑا، جہاں اس نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا، مگر بعد میں انہی تنازعات کے اثرات اور سنگین نتائج کا تنہا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رجحان مختلف ادوار میں، خاص طور پر سرد جنگ، افغان-سوویت جنگ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور 9/11 کے بعد کے دور میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں، لیکن عالمی برادری کی جانب سے اسے تعاون کے بجائے اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر دنیا واقعی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مخلص ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ عملی تعاون کرنا ہوگا، نہ کہ صرف اپنے مفادات حاصل کرکے اسے تنہا چھوڑ دینا چاہیے۔

سرد جنگ کے دوران، پاکستان نے امریکہ اور مغربی بلاک کے ساتھ اتحاد کیا اور سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) جیسے فوجی معاہدوں میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم، اس کا سب سے اہم کردار 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران سامنے آیا، جب پاکستان نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر سوویت جارحیت کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی مالی اور عسکری مدد کے ساتھ، پاکستان نے ایک کلیدی اتحادی کے طور پر لاجسٹک اور انٹیلی جنس تعاون فراہم کیا تاکہ خطے میں سوویت اثر و رسوخ کو روکا جا سکے۔ اس جنگ میں سوویت افواج پسپا تو ہو گئیں، مگر اس کے طویل المدتی منفی اثرات پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد، شدت پسند نظریات کا بے قابو پھیلاؤ، اور مسلح گروہوں کے ابھرنے نے خطے میں عدم استحکام کو جنم دیا۔ 1989 میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد، امریکہ نے پاکستان سے اپنی توجہ ہٹا لی اور اسے ایک جنگ زدہ ہمسایہ اور نئے سیکیورٹی خطرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

9/11 کے حملوں کے بعد، پاکستان ایک بار پھر عالمی تنازعے کی زد میں آ گیا جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ امریکی دباؤ کے تحت، پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا اور اپنی سابقہ افغان پالیسی ترک کر دی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کے اندر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، کیونکہ وہی مسلح گروہ، جو پہلے مختلف قوتوں کی حمایت سے پروان چڑھ رہے تھے، اب پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ پاکستان نے انتہا پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کیے، مگر اس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں نے جوابی حملوں میں شدت پیدا کر دی۔ ان میں سب سے المناک واقعات میں 2007 کا لال مسجد آپریشن شامل تھا، جس کے بعد ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا، اور 2014 میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کا سانحہ پیش آیا، جہاں 140 سے زائد معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔ 80,000 سے زائد پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا۔ ان عظیم قربانیوں کے باوجود، پاکستان کو اکثر “دوہری پالیسی” کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، بجائے اس کے کہ اسے ایک اہم اتحادی کے طور پر تسلیم کیا جاتا۔

2021 میں امریکہ کے اچانک افغانستان سے انخلا نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا، جس کے نتیجے میں طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔ اس تبدیلی نے پاکستان کی سلامتی پر براہ راست اثر ڈالا، کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے مسلح گروہ دوبارہ متحرک ہو گئے اور سرحد پار حملوں میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کے علاوہ، جب امریکہ نے افغانستان چھوڑا تو وہ تقریباً 7 ارب ڈالر مالیت کا فوجی ساز و سامان، بشمول اسلحہ، کمیونیکیشن آلات اور بکتر بند گاڑیاں، وہیں چھوڑ گیا۔ یہ ہتھیار اب دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں، جو انہیں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس لاپرواہی کے نتیجے میں سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس سے ملک کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے، لیکن اکثر اسے خود اپنے دفاع کے لیے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، پاکستان نے اپنی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا ایک عملی مظاہرہ کیا جب اس نے خطرناک دہشت گرد شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کیا، جو ان 13 امریکی فوجیوں اور افغان شہریوں پر حملے میں ملوث تھا جو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے دوران مارے گئے تھے۔ لیکن اس فیصلے پر عالمی برادری کی جانب سے سراہنے کے بجائے، پاکستان کو اب دہشت گرد گروہوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو روزانہ کی بنیاد پر حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سب سے المناک حملہ بلوچستان میں ایک مسافر ٹرین پر بم دھماکہ تھا، جس میں 400 سے زائد افراد سوار تھے اور جس کے نتیجے میں بے شمار معصوم جانیں ضائع ہو گئیں۔ یہ حملے واضح کرتے ہیں کہ پاکستان آج بھی دہشت گردی کی سب سے بڑی قیمت چکا رہا ہے، مگر عالمی برادری اس کی قربانیوں اور مشکلات پر خاموشی اختیار کیے بیٹھی ہے۔

عالمی برادری کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کا استحکام نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ بڑی طاقتوں کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے تعاون کی راہ اپنانی چاہیے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پہنچنے والے معاشی نقصانات کے ازالے کے لیے مالی امداد فراہم کی جائے، انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے ذریعے پاکستان کے ساتھ تعاون کیا جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔

پاکستان کو بارہا عالمی طاقتوں نے ایک اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر استعمال کیا، لیکن جب مسائل کے طویل المدتی نتائج کا سامنا ہوا تو اسے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اگر عالمی طاقتیں واقعی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہیں تو انہیں اپنے وقتی مفادات پورے کرنے کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑنے کے بجائے اس کی مدد کرنی ہوگی۔ ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے اور دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کو بھی اپنی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے اپنے قومی مفادات، ملک کی سالمیت اور عوام کی سلامتی، کسی بھی بیرونی طاقت کے مفادات اور بین الاقوامی تنازعات سے زیادہ مقدم ہیں۔ پاکستان کو ایسی پالیسیوں کو ترجیح دینی چاہیے جو اس کی خودمختاری، داخلی استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں، بجائے اس کے کہ وہ بیرونی دباؤ یا عارضی اتحادوں کی خاطر اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈالے۔ ایک مضبوط، خودمختار اور مستحکم پاکستان ہی عالمی سطح پر ایک مؤثر اور باوقار کردار ادا کر سکتا ہے۔

(19 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts