GHAG

وزیراعلیٰ کا ریاست مخالف بیانیہ اور صوبے کی سیکورٹی صورتحال

عقیل یوسفزئی

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہیں جن میں ان کے بقول “گڈ طالبان” بھی شامل ہیں۔ انہوں نے جنگ زدہ صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہوتے ہوئے یہاں تک کہا کہ صوبے کے بعض علاقوں میں گڈ طالبان باقاعدہ ناکہ بندیاں بھی کرتے ہیں اور لوگوں کی تلاشیاں بھی لیتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں موصوف نے کہا کہ وہ صوبے میں کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ ان کے مطابق فوجی کارروائیوں کے ذریعے بدامنی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے ہی بیان کی تردید کرتے ہوئے اسی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ویسے بھی صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر آپریشن ہوتے رہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں، وغیرہ وغیرہ

ان کے انٹرویو کو سن اور دیکھ کر لگ ایسے رہا تھا جیسے وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی بجائے کسی کالعدم تنظیم یا گروپ کے ترجمان ہو۔ جس انداز میں انہوں نے ریاست مخالف بیانیہ اپناتے ہوئے عوام کو طالبان وغیرہ سے ڈرانے کی کوشش کی اس سے آرمی چیف کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے جس میں انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو “ہارڈ سٹیٹ” بنانا پڑے گا ۔ وزیر اعلیٰ اور ان کی پارٹی کی پروطالبان پالیسی کوئی نئی بات قطعاً نہیں ہے کیونکہ یہ پارٹی اپنے قیام کے بعد سے اپنے بانی چیئرمین کے بیانیہ کے مطابق طالبان سمیت ہر ایسی قوت کی نہ صرف حمایت کرتی آرہی ہے بلکہ بانی چیئرمین آن دی ریکارڈ متعدد مواقع پر عالمی برادری کو مطلوب مختلف کمانڈروں کو ہیرو بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ جس شام کو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا یہ انٹرویو نشر ہورہا تھا اسی روز خیبرپختونخوا میں انہی کی زیراہتمام پولیس فورس پر تین مختلف اضلاع میں تین حملے کیے جاچکے تھے ۔ گزشتہ پانچ چھ روز کے دوران خیبرپختونخوا کے تقریباً 14 اضلاع میں 40 سے زیادہ حملے کیے گئے ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ان میں 88 فیصد حملے پولیس فورس پر کئے گئے مگر پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ ایک اہم چینل پر حملہ آوروں کی نہ صرف وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ اپنی پولیس اور عوام کو خوفزدہ کرنے کی شعوری کوشش بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ “فرمودات، ارشادات” اس قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے عین اگلے روز سامنے آئیں جس میں انہوں نے تمام عسکری اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی موجودگی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے خود بھی شرکت کی تھی۔ اس قسم کی صورتحال میں یہ توقع ہی عبث ہے کہ اس صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی پالیسی کے ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا میں امن کا قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے یا کسی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔

(20 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts