اے وسیم خٹک
امریکہ میں مسلمانوں اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں یہ اقدامات ایک منظم پالیسی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں، کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینی طالبہ “لیقا” کو اچانک گرفتار کر لیا گیا، جس کے بارے میں حکام کا کہنا تھا کہ اس کا اسٹوڈنٹ ویزا ختم ہو چکا ہے۔ تاہم، غیرملکی میڈیا کے مطابق، اس کی گرفتاری فلسطین پر تنقید کرنے کی وجہ سے ہوئی۔ اسی طرح، بھارتی طالبہ “رنجنی” کا ویزہ بھی منسوخ کر دیا گیا، جس پر الزام تھا کہ وہ حماس کی حمایت کرتی ہے۔ یہ واقعات اس وسیع تر مہم کا حصہ ہیں جس میں فلسطینی حامی طلبہ اور اسکالرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے پاکستان کو سفری پابندیوں کی “اورینج لسٹ” میں ڈال دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی شہری صرف بزنس ویزے پر امریکہ جاسکیں گے، جبکہ طلبا، سیاحوں اور خاندان سے ملنے کے خواہشمند افراد کے لیے ویزے تقریباً بند کر دیے گئے ہیں۔ اس فہرست میں ایران، شام، لیبیا، اور یمن جیسے مسلم ممالک بھی شامل ہیں، جنہیں “سرخ لسٹ” میں رکھا گیا ہے، جہاں کے شہریوں کو کسی بھی قسم کا ویزہ نہیں دیا جاتا۔
صرف ویزے ہی نہیں، بلکہ امریکہ میں پاکستانی تعلیمی اداروں کے ساتھ جاری کئی اہم پراجیکٹس بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان کی 18 یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام “HESSA” (Higher Education Support Initiative) کو اچانک معطل کر دیا گیا، حالانکہ اس کے تین سال مکمل ہو چکے تھے اور مزید دو سال باقی تھے۔ اس کے علاوہ، پاکستان اور مصر جیسے ممالک کے ساتھ ہیلتھ کیئر، ٹیکنالوجی اور ثقافتی تبادلے کے کئی منصوبے بھی ختم کر دیے گئے ہیں، جس سے تعلیمی و سائنسی روابط بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں مسلسل اضافہ ہوا، لیکن ٹرمپ کے دور میں یہ پالیسی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ مسلمانوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جانے لگا، مساجد اور اسلامی مراکز پر حملے بڑھ گئے، اور فلسطین کی حمایت کرنے والوں کو دہشت گردی سے جوڑا جانے لگا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینی پرچم لہرانے والے طلبا پر جاسوسی کے الزامات عائد کیے گئے، جبکہ سوشل میڈیا پر فلسطین کے حامیوں کے خلاف ہوم لینڈ سکیورٹی کی تحقیقات شروع کر دی گئیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات کے ساتھ، وائس آف امریکہ (VOA) کے ملازمین کو بھی جبری رخصت (Paid Leave) پر بھیج دیا گیا ہے، جبکہ دو امریکی نشریاتی اداروں، جو آمرانہ حکومتوں والے ممالک میں نشریات چلاتے ہیں، کی فنڈنگ میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سامنے آیا، جس کے تحت حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے میڈیا اداروں کے مرکزی ادارے اور چھ دیگر وفاقی ایجنسیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے کئی ملازمین نے رائٹرز کو بتایا کہ انہیں ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ “تاحکمِ ثانی مکمل تنخواہ اور مراعات کے ساتھ انتظامی رخصت پر رہیں گے۔” وائس آف امریکہ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ہے جو 40 سے زائد زبانوں میں خبریں اور پروگرام نشر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو فری ایشیا جیسے نشریاتی اداروں کی فنڈنگ بھی محدود کر دی گئی ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب قدامت پسند حلقے ان نیوز سروسز پر تنقید کرتے رہے ہیں، جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ادارے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
ٹرمپ کے ان اقدامات پر دنیا بھر میں شدید تنقید ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ اظہارِ رائے کی آزادی کو کچل رہا ہے، جبکہ پاکستان نے سفری پابندیوں کو “دوطرفہ تعلقات کے لئے نقصان دہ” قرار دیا ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) نے بھی امریکہ سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ پالیسیاں امریکہ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں، کیونکہ ہیلتھ کیئر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تارکین وطن کی کمی سے معاشی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اور دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔
مسلمانوں اور فلسطینی حامیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی آوازوں کو اکٹھا کریں۔ میڈیا کے ذریعے اپنی کہانیاں دنیا تک پہنچائیں، سیاست دانوں سے رابطہ بڑھائیں، اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مکالمے کو فروغ دیں۔ امریکہ کی تاریخ میں دیکھا جائے تو ماضی میں نسلی امتیاز کے خلاف جو تحریکیں کامیاب ہوئیں، وہ اسی طرح کے اتحاد کی بدولت ممکن ہوئیں۔ آج بھی انصاف کے لیے کھڑے ہونے والے لوگ ہی اس رجحان کو بدل سکتے ہیں۔
(20 مارچ 2025)