عقیل یوسفزئی
راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی 268 ویں کور کمانڈر کانفرنس کے دوران ملک کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خلاف کی جانے والی تمام کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ طاقت کے ذریعے مقابلہ کیا جائے گا اور دہشت گرد گروپوں کے علاوہ منفی پروپیگنڈا اور انتشار میں ملوث عناصر، ان کے سہولت کاروں کے خلاف تمام درکار اقدامات کیے جائیں گے۔ آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں جاری کردہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ملک کو درپیش ہر قسم چیلنجر سے نمٹنے کیلئے تمام صلاحیتوں اور وسائل کو استعمال کریں گی اور یہ کہ پاکستان کی معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے بھی سول اداروں کی بھرپور معاونت کی جائے گی۔
اس موقع پر آرمی چیف نے فیلڈ کمانڈرز کو ہدایت کی کہ وہ بھرپور صلاحیتوں اور تیاریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ فورم کو ملک کے مختلف معاملات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جس کے اختتام پر اس عزم کا کھل کر اظہار کیا گیا کہ دیگر اقدامات کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا اور دہشتگردی اور انتشار پسندی کی ہر شکل کی بیخ کنی کی جائے گی۔ بلوچستان میں سیکورٹی کی صورتحال پر خصوصی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ خیبر پختونخوا کے سیکورٹی حالات پر بھی بحث کی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو نہ صرف دہشت گردی کی مختلف اشکال کا سامنا ہے بلکہ نام و نہاد سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بڑی انویسٹمنٹ اور پلان کے تحت پاکستان کے عوام کو ریاست سے مایوس کرنے کے ایجنڈے پر بھی کام جاری ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں اس معاملے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے ۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اگست 2021 کے بعد مسلسل قربانیوں دیتی آرہی ہیں تاہم ایک مخصوص پارٹی اور بعض دیگر گروپ عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی بجائے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ریاست مخالف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجے میں عوام میں مایوسی پھیلانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے ۔دوسری جانب اس میں بھی کوئی کوئی شک نہیں ہے کہ متعدد مواقع پر ریاست نے بعض حلقوں اور علاقوں کے ساتھ بوجوہ امتیازی سلوک بھی کیا ہوگا اور اس سلوک کی تلافی ہونی چاہیے تاہم ملک کو دو حساس صوبوں یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جن چیلنجز کا سامنا ہے اس تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے قومی اتفاق رائے کا راستہ اختیار کرکے آگے بڑھا جائے اور اپنے مطالبات منوانے اور خدشات کے خاتمے کے لئے جمہوری اور آئینی راستے اپنائے جائیں۔
(6 اپریل 2025)