بیرسٹر ڈاکٹرعثمان علی
پاکستان آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں جنگ میدانوں میں نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جا رہی ہے۔ دشمن کی توپیں خاموش ہیں مگر اس کی زبانیں، بیانیے اور ڈیجیٹل ہتھیار پوری شدت سے سرگرم ہیں۔ ریاستِ پاکستان، جسے ایک نظریے، قربانیوں اور بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا، آج اپنی ہی نئی نسل کی فکری گمراہی کا شکار بنتی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل، جو کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ اور مستقبل ہوتی ہے، آج تیزی سے سوشل میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے، جھوٹے بیانیوں اور فکری انتشار کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ صرف ایک سماجی یا تعلیمی بحران نہیں بلکہ قومی سلامتی، ریاستی سالمیت اور ایٹمی پاکستان کی بقا کا سوال ہے، جس پر ہر طرف سے دشمن ٹوٹ پڑا ہے۔
ہمارے نوجوانوں کی اس فکری گمراہی کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انہیں تنقیدی سوچ اور میڈیا کی سچائی پرکھنے کی صلاحیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں جہاں ہر شخص ایک “ذرائع ابلاغ” بن چکا ہے، وہاں جھوٹ سچ سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ نوجوان جذباتی بیانیے، وائرل ویڈیوز اور آدھے سچ پر آسانی سے یقین کر لیتے ہیں۔ انہیں نہ خبر کے ماخذ کی جانچ کا علم ہے، نہ کسی ویڈیو یا تحریر کے پیچھے چھپے مقاصد کی پہچان۔ لازم ہے کہ میڈیا لٹریسی کو قومی تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ نوجوان سچ، جھوٹ، افواہ، اور سازش میں فرق کر سکیں۔
اسی طرح شہری تعلیم کا شدید فقدان بھی نوجوانوں کو ریاستی اداروں سے بدظن کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ نہ آئین کو جانتے ہیں، نہ ریاستی ڈھانچے کو سمجھتے ہیں، نہ اپنے حقوق اور فرائض کا شعور رکھتے ہیں۔ یہ خلا دشمن کے بیانیے کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے، جو ریاست کو “غاصب” اور اداروں کو “ظالم” بنا کر پیش کرتا ہے۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ریاست کس طرح چلتی ہے، اداروں کا کردار کیا ہے، اور ایک آئینی، جمہوری نظام میں تبدیلی کا راستہ بغاوت نہیں، قانون کے دائرے میں جدوجہد ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام ایک اور بڑی کوتاہی یہ کر رہا ہے کہ نوجوانوں کو ان کی اپنی تاریخ سے کاٹ رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کی بنیاد لاکھوں قربانیوں پر رکھی گئی ہو، جب اس کی نئی نسل کو اپنی شناخت، قربانیوں، اور نظریے کا شعور نہ دیا جائے، تو وہ ماضی سے نفرت اور حال سے مایوسی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کو ایمانداری، فخر اور توازن کے ساتھ نوجوانوں تک پہنچانا ناگزیر ہے، تاکہ وہ جان سکیں کہ پاکستان کسی حادثے کا نہیں بلکہ ایک خواب، ایک نظریہ، اور ایک شعوری فیصلہ کا نتیجہ ہے۔
سوشل میڈیا ایک نئی فکری غلامی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ نوجوان گھنٹوں موبائل اسکرینز کے سامنے بیٹھے منفی، اشتعال انگیز اور گمراہ کن مواد میں الجھے رہتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز نوجوانوں کے وقت، ذہن اور کردار کو ہائی جیک کر رہے ہیں، اور بدلے میں انہیں نفرت، مایوسی اور شکوک دے رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں، والدین، اور ریاست کو مل کر ڈیجیٹل شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ نوجوان اپنی ذہنی خودمختاری واپس حاصل کر سکیں۔
اسلام، جو کہ پاکستان کی روح اور اس کے قیام کا اصل محرک تھا، آج خود انتہاپسند بیانیوں، فرقہ واریت اور جذباتی استحصال کا شکار ہو چکا ہے۔ بعض عناصر نے اسلام کو اتحاد کی بجائے نفرت اور بغاوت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ مساجد، علماء، اور دینی مدارس کو چاہیے کہ نوجوانوں کو اسلام کا اصل پیغام ، یعنی رواداری، صبر، اخوت، اور حب الوطنی سکھائیں۔ دین کا استعمال ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے نہیں، بلکہ ملک و ملت کی اصلاح کے لیے ہونا چاہیے۔
دشمن آج براہِ راست حملہ کرنے کے بجائے خاموشی سے ہماری نظریاتی سرحدوں کو کمزور کر رہا ہے۔ ففتھ جنریشن وارفیئر کے ذریعے دشمن کا مقصد یہ ہے کہ عوام کا اپنی فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں پر اعتماد ختم کر دیا جائے، انہیں مایوسی، بے یقینی اور بغاوت کی طرف دھکیلا جائے۔ شام، عراق، افغانستان، اور لیبیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب قوموں کے اندر سے اتحاد ختم ہوتا ہے تو بیرونی حملے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ہر آواز آزادی کی نہیں ہوتی — اکثر یہ آوازیں دشمن کے تیار کردہ جال کا حصہ ہوتی ہیں۔
تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ صرف عوام یا نوجوان ہی ذمہ دار نہیں ۔ ریاست کی خاموشی، مبہم بیانیہ، اور سچ کو چھپانے کی پالیسی بھی اس بحران کو ہوا دے رہی ہے۔ جب ریاست سچ نہ بولے، جب اہم واقعات کی مکمل تفصیلات عوام سے چھپائی جائیں، جب صرف سرکاری بیانات یا “آف دی ریکارڈ” ذرائع عوام کی رہنمائی کریں، تو پھر جھوٹ پنپتا ہے۔ ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سچائی ہی اعتماد کی بنیاد ہے۔ اگر ریاست اپنی عوام کو سچ نہیں بتائے گی تو جھوٹ کے بیانیے غالب آ جائیں گے، اور اعتماد بحال ہونے کے بجائے مزید ٹوٹے گا۔
آج کے نوجوانوں کو جن شخصیات سے متاثر ہونا چاہیے، وہ کہیں پسِ پردہ ہیں۔ روزانہ اپنی جان قربان کرنے والے اہلکار، سرحدوں پر ڈٹے سپاہی، دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے گمنام ہیرو، اور وہ لوگ جو خاموشی سے قوم کی خدمت کر رہے ہیں — ان کا ذکر نہ میڈیا میں ہوتا ہے نہ نصاب میں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض حلقوں میں ملک دشمن عناصر، شرپسند اور دہشتگردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اور جو ریاست کی سلامتی کے لیے جان دیتے ہیں، ان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ہمیں یہ بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اصل ہیرو وہ ہیں جو بغیر کسی صلے کے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کی خدمت کرتے ہیں، نہ کہ وہ جو ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلتے ہیں۔
یہ سب کچھ محض جذباتی اپیل نہیں بلکہ ایک عملی، قومی حکمت عملی کا تقاضا ہے۔ جب تک ریاست، تعلیمی ادارے، علماء، والدین، اور میڈیا مل کر نوجوانوں کی فکری تربیت، نظریاتی رہنمائی، اور سچائی پر مبنی شفاف بیانیے کی تشکیل نہیں کرتے، یہ جنگ ہم ہار چکے ہوں گے ۔ اور شاید ہمیں پتہ بھی نہ چلے۔
پاکستان کی بقا صرف ایٹمی صلاحیت، ٹینکوں یا میزائلوں میں نہیں بلکہ اس نوجوان نسل کی فکری خودمختاری، حب الوطنی، اور نظریاتی وفاداری میں ہے۔ یہی ہماری اصل قوت ہے، اور یہی وہ محاذ ہے جسے اب مزید نظر انداز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔
(6 اپریل 2025)