GHAG

افغانستان کے مہاجرین: پاکستانی مہمان نوازی کا اختتام

اے وسیم خٹک

اب افغان باشندوں کو جانا ہی پڑے گا، بس بہت ہو چکا، اس دفعہ بس ہوگئی۔ اتنے سال پاکستانیوں نے افغانوں کو برداشت کرلیا شاید افغانستان ایک دن بھی پاکستانیوں کو برداشت نہ کرسکیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1947 میں جب لٹے پٹے قافلے پاکستان آتے تھے تو بہت سوں نے افغانستان کا راستہ استعمال کیا، مگر افغان حکومت نے نہروں میں رات کو پانی چھوڑ دیا تاکہ مہاجرین وہاں رات نہ گزار سکیں۔ پھر جب وطن عزیز کو تسلیم کرنے کی بات آئی تو افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔

بعد ازاں، افغان روس جنگ کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ انہیں دل سے قبول کیا، مگر اس کے نتیجے میں ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر متعارف ہوا۔ افغانوں نے یہاں کاروبار شروع کیے اور خاص طور پر پشاور میں تجارت پر غلبہ حاصل کر لیا۔ ہوٹل، مارکیٹیں اور دیگر کاروباری سرگرمیاں ان کے قبضے میں چلی گئیں۔ حیات آباد جیسے علاقوں میں کرائے آسمان کو چھونے لگے کیونکہ افغان شہری زیادہ کرائے پر وہاں مقیم ہونے لگے۔ غیر قانونی سرگرمیاں، حتیٰ کہ جسم فروشی جیسے جرائم بھی بڑھنے لگے۔

1980 کی دہائی میں پشاور میں پہلا دھماکہ ہوا، اور اس کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھتے چلے گئے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی، اور افغانستان کی طرف سے مسلسل مداخلت جاری رہی۔ ان واقعات میں بھارت اور ایران کے اثر و رسوخ کے بھی شواہد ملے۔ پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں اور داخلی سیکیورٹی کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔

افغان سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 2014 میں پیش آنے والا آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کا المناک واقعہ اس کی ایک بڑی مثال ہے، جہاں معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ اس حملے کے تانے بانے افغانستان میں چھپے دہشت گرد گروہوں سے جا ملے، جنہیں وہاں سے مکمل سہولت اور پناہ دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ، مستونگ دھماکہ، اور پشاور میں کئی بڑے حملے افغان دہشت گردوں کے ساتھ منسلک رہے۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، خاص طور پر منشیات کی اسمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے دیگر پہلو، جن میں غیر قانونی افغان باشندے براہ راست یا بالواسطہ ملوث پائے گئے۔ افغان پناہ گزینوں کی بستیوں میں جرائم پیشہ عناصر کی پناہ گاہیں بن گئیں، جہاں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں مجرمانہ سرگرمیاں منظم کی جاتی رہیں۔

اب حکومت پاکستان نے غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف حتمی قدم اٹھاتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے کی آخری وارننگ دے دی ہے۔ پہلے دی گئی 31 مارچ 2025 کی ڈیڈ لائن میں اب توسیع کرتے ہوئے 10 اپریل 2025 کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی۔ اس بار حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ جو غیر قانونی افغان مہاجرین ملک نہیں چھوڑیں گے، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہیں ڈی پورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جرائم کا مکمل ریکارڈ مرتب کرکے آئندہ کسی بھی صورت میں دوبارہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے سے روکا جائے گا۔

پاکستان نے ہمیشہ مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے، مگر اب مزید بوجھ اٹھانے کی گنجائش نہیں۔ مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا تاکہ پاکستان اپنے داخلی معاملات کو بہتر بنا سکے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کر سکے۔ اس پالیسی پر عمل درآمد میں انسانی حقوق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ سکے اور خطے میں استحکام پیدا ہو۔

اب تک دوسرے فیز میں، جو 10 اپریل کی ڈیڈ لائن کے تحت جاری ہے، تقریباً 878,972 غیر قانونی افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس عمل کو مؤثر طریقے سے جاری رکھا جائے گا تاکہ ملک میں امن و امان قائم رہ سکے اور غیر قانونی افراد کی واپسی مکمل ہو۔

(12 اپریل 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts