پورے ملک میں اس آج حکومتی ، سیاسی اور عوامی سطح پر پاکستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ پاکستان مختلف ادوار ، چیلنجر سے گزرتے ہوئے 77 سال کا ہوگیا ہے ۔ اس تمام عرصے میں پاکستان پر مختلف نوعیت کے تجربات کیے گئے اور پاکستان کو مختلف اندورنی اور بیرونی اسباب کے نتیجے میں 1971 کے سانحہ سے بھی دوچار ہونا پڑا جس نے ہماری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے تاہم اس ملک کی کامیابیوں کا سفر بھی متعدد غلطیوں اور مشکلات کے باوجود جاری رہا۔
پاکستان کے قیام اور اس کے دفاع میں خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں کے عوام کا بہت بنیادی کردار رہا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پشتونوں نے ہر سطح پر بے مثال قربانیاں دیں ۔ ان قربانیوں کا دوسروں کے علاوہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے علماء کنونشن سے خطاب کے دوران بھی اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امن کے لئے پشتونوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
یہ بات قابل افسوس ہے کہ مختلف ادوار میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو نہ صرف امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا رہا بلکہ بعض سیاسی حلقوں کی ناراضگی اور مزاحمت کے باعث عوام کو ریاست سے متنفر کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں جس کے نتیجے میں بدگمانیوں اور دوریوں میں اضافہ ہوا تاہم پشتون بحیثیت مجموعی پاکستان کے “اسٹیک ہولڈر” رہے اور جب ہم پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ پشتونوں نے تمام تر خدشات کے باوجود کبھی بھی عملی مزاحمت کا راستہ ہموار نہیں کیا اور اس رویے کا قومی سطح پر اعتراف کیا جانا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد ریاستی اور سیاسی طور پر مختلف ادوار میں کی گئی غلطیوں کے باعث ریاست کو متعدد چیلنجز سے دوچار ہونا پڑا تاہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان خطے اور عالمی برادری کا ایک اہم ملک ہے اور انٹرنیشنل کوریڈورز میں اس کی اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت رہی ہے اور اس وقت بھی خطے کے فیصلوں میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی راہیں تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور ایک ایسے وفاقی ڈھانچے کا راستہ ہموار کیا جائے جس میں پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز ، قومیتوں اور طبقوں کو مساوی حقوق حاصل ہو۔
بلاشبہ آج کی تاریخ میں پاکستان کو سیکورٹی مسائل کے علاوہ سیاسی کشیدگی اور معاشی چیلنجر کا بھی سامنا ہے تاہم عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ماضی کی تلخ یادوں کی بجائے مستقبل بینی کا رویہ اختیار کیا جائے کیونکہ ہم سب کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے اور ہم نے تمام تر گلے شکووں کے باوجود اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔