GHAG

اپنوں کی زبان، دشمنوں کا ہتھیار

اپنوں کی زبان، دشمنوں کا ہتھیار

اے وسیم خٹک

کبھی کبھار ایک جملہ، جو شاید ایک لمحے کی سیاسی برتری کے لیے کہا جاتا ہے، پوری ریاست پر بین الاقوامی دباؤ بن کر نازل ہوتا ہے۔ یہ محض باتوں کی بات نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اثرات اداروں کی ساکھ، ملک کی سالمیت، اور عالمی سطح پر پاکستان کے اعتماد پر پڑتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ایک پریس کانفرنس میں کی گئی گفتگو نے وہی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا: “ہم طالبان کو گرفتار کرتے ہیں لیکن ادارے انہیں رہا کر دیتے ہیں۔” ان الفاظ نے نہ صرف ملکی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک بار پھر  یعنی فیٹف جیسے ادارے کی نگاہ میں لا کھڑا کیا۔

بھارتی حکومت نے علی امین گنڈا پور کے اسی بیان کو بنیاد بنا کر فیٹف میں پاکستان کے خلاف باقاعدہ شکایت جمع کروائی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ جب خود پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار تسلیم کر رہے ہیں کہ شدت پسند عناصر کو ادارے تحفظ فراہم کرتے ہیں، تو عالمی برادری کیسے مانے کہ پاکستان دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے میں سنجیدہ ہے؟

یہ محض ایک سفارتی چال نہیں، بلکہ ایک منظم بین الاقوامی کوشش ہے جو پاکستان کو دوبارہ فیٹف کی گرے لسٹ میں ڈالنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اور اس کی بنیاد صرف ایک غیر ذمہ دار بیان ہے—ایک ایسا بیان جو شاید مقامی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے دیا گیا، لیکن اس کی بازگشت دنیا کے طاقتور دارالحکومتوں میں سنی گئی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان ایسے غیر ذمہ دار سیاسی بیانات کی قیمت چکا رہا ہے۔ 2008، 2012، اور پھر 2018 میں پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ وجہ ہمیشہ ایک ہی رہی: شدت پسندوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی۔ 2018 سے 2022 تک پاکستان نے سخت محنت کی۔ 34 نکاتی فیٹف ایکشن پلان پر عمل کیا گیا، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو فعال بنایا گیا، دہشتگردوں کے خلاف مالی اقدامات کیے گئے، اور ملک کو وائٹ لسٹ میں شامل کروایا گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

لیکن اب ایک وزیر اعلیٰ کے غیر محتاط جملے نے ان ساری کوششوں پر پانی پھیرنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

یہ معاملہ صرف علی امین گنڈا پور تک محدود نہیں۔ یہ ایک وسیع تر سیاسی رویے کا عکاس ہے جو پچھلے کئی برسوں سے جڑ پکڑ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کی قیادت بارہا ایسے بیانات دیتی رہی ہے جنہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کے بیانیے کو کمزور کیا۔ چاہے وہ عمران خان کا امریکی سازش کا بیانیہ ہو، یا فوج اور عدلیہ پر کی جانے والی تنقید، یہ تمام بیانات پاکستان کے داخلی استحکام کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی متاثر کرتے رہے ہیں۔

حکومت میں ہوتے ہوئے ریاستی اداروں پر الزامات لگانا نہ صرف غیر سنجیدہ رویہ ہے بلکہ یہ ریاست کے خلاف ایک شعوری محاذ کھولنے کے مترادف ہے۔ سیاست اختلاف رائے کا نام ہے، لیکن اگر وہ اختلاف قومی سلامتی، معیشت، یا بین الاقوامی وقار کی قیمت پر ہو تو وہ دشمنی بن جاتا ہے. اور پی ٹی آئی کا حالیہ بیانیہ اسی دشمنی کی ایک شکل اختیار کر چکا ہے۔

فیٹف صرف ایک مالیاتی ادارہ نہیں، بلکہ ایک عالمی دباؤ کا آلہ ہے۔ اس کی گرے لسٹ میں شامل ہونے کا مطلب ہے پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کی راہیں تنگ ہونا، مالیاتی اداروں کا سخت رویہ، اور تجارتی شراکت داروں کا غیر یقینی رویہ۔ ایسے میں اگر ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ براہِ راست ریاستی اداروں پر شدت پسندوں کی پشت پناہی کا الزام لگا دے، تو عالمی برادری کے لیے پاکستان پر بھروسہ کرنا کس قدر مشکل ہو جائے گا؟

فیٹف میں اگرچہ پاکستان کے خلاف کوئی فوری فیصلہ نہیں ہوا، لیکن بھارت کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اگر مزید اسی قسم کے بیانات جاری رہے تو پاکستان کا دوبارہ گرے لسٹ میں جانا صرف وقت کی بات ہو گی۔

اس لیے یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور ریاست سنجیدگی اختیار کریں۔ سیاسی بیانات اب صرف مقامی سیاست کے لیے نہیں ہوتے۔ عالمی فورمز، میڈیا، اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس ان کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ ایک لمحے کی غیر ذمہ داری کئی سال کی محنت ضائع کر سکتی ہے۔

ہمارے ملک میں کیا سیاست واقعی اتنی اندھی ہو چکی ہے کہ ہم ریاست کی سالمیت اور عالمی وقار کو داو پر لگا کر بھی باز نہیں آتے؟ اگر سیاست دان واقعی پاکستان سے مخلص ہیں، تو ہر لفظ سوچ سمجھ کر بولنا ہو گا، اور ہر پلیٹ فارم پر قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts