بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
“یہ ظلم و جبر کا نظام ہے، اس ملک میں نہ کوئی آئین باقی رہا ہے اور نہ قانون۔ عدالتیں شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکیں۔ اب تمام حدیں اور سرخ لکیریں عبور کر لی گئی ہیں۔ اس فاشسٹ حکومت کے خلاف ہم ہر فورم پر آواز بلند کریں گے۔ آپ کے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور ظلم کی یہ تاریک رات جلد ختم ہو گی۔”
یہ بیانیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بارہا سننے کو ملا ہے، ہر اس جماعت نے دہرایا جو اقتدار سے محروم ہوئی۔ اس کے ساتھ وہ دھمکی بھی ہمیشہ سنائی دیتی رہی: “حکومت والے اتنا ظلم کریں کہ کل کو خود برداشت کر سکیں۔” یہ محض جذباتی یا غصے کے جملے نہیں بلکہ اس تلخ حقیقت کا عکس ہیں کہ پاکستان میں سیاست عوامی خدمت نہیں بلکہ طاقت اور انتقام کا کھیل بن چکی ہے۔ یہ کھیل اٹھہتر برس سے جاری ہے اور ہر آنے والا دور پچھلے سے زیادہ زہرناک ہو چکا ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت خواب یہ تھا کہ آئین کی حکمرانی ہوگی، مگر چند ہی برسوں میں طاقت کے نشے نے یہ خواب چکنا چور کر دیا۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا اور اعلان کیا: “جمہوریت اس ملک کے مزاج کے خلاف ہے”۔ مخالفین پر مقدمات قائم ہوئے، کئی نااہل قرار دیے گئے اور سیاست کو جرنیلوں کے اشاروں پر چلنے والا کھیل بنا دیا گیا۔ پھر یحییٰ خان کا دور اور سانحۂ مشرقی پاکستان اس کھیل کی سنگینی کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لا میں مخالفین کو کوڑے برسائے گئے، جیلوں میں سڑایا گیا، اور یہ سب کچھ “نظام کی اصلاح” کے نام پر ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی کہ اقتدار کی جنگ میں اصولوں کی کوئی وقعت نہیں۔ مگر ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب یہ فوجی حکمران رخصت ہوئے تو کوئی بھی جمہوری حکومت ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کر سکی۔ نہ مقدمے چلے، نہ سزائیں ہوئیں۔ یہ اس نظام کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ سیاست دان تو ایک دوسرے کو روندتے رہے، مگر طاقت کے اس کھیل کے اصل معماروں سے کبھی کسی نے سوال نہ کیا۔
1988 میں جب ٹوٹی پھوٹی جمہوریت بحال ہوئی تو عوام کو امید بندھی کہ شاید اب سیاسی انتقام کا سلسلہ ختم ہوگا، شاید یہ شیطانی چکر ٹوٹے گا۔ مگر ہوا کیا؟ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں ایک دوسرے کو غدار اور کرپٹ ثابت کرنے میں مصروف رہیں۔ الزامات، مقدمات، گرفتاریاں—سب کچھ اقتدار کے کھیل کا حصہ بنا رہا۔ دونوں جماعتیں بار بار اسٹیبلشمنٹ کے در پر جاتی رہیں۔ یوں جمہوریت ایک کھوکھلا نعرہ رہ گئی جبکہ اقتدار کی ہوس اصل ایجنڈا ٹھہرا۔
1999 میں فوج نے ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں حکومت پر قبضہ کیا اور احتساب کے نام پر مخالفین کو کچلنے کا سلسلہ شروع کیا۔ نواز شریف جلاوطنی پر مجبور ہوئے جبکہ بینظیر بھٹو بھی وطن سے باہر اور مقدمات کی زد میں رہیں۔ مگر جب 2008 میں جمہوریت بحال ہوئی تو امید تھی کہ شاید اب ماضی سے سبق سیکھا جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اپوزیشن نے اقتدار گرانے کی ہر ممکن کوشش کی اور پھر جب نواز لیگ برسراقتدار آئی تو دھرنوں اور احتجاج کا طوفان کھڑا کر دیا گیا، جس کے پیچھے عمران خان کی اقتدار کی ہوس اور جرنیلوں کی شہہ کارفرما تھی۔
2018 میں جرنیلوں، ججوں اور میڈیا کے گٹھ جوڑ سے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو اعلان کیا: “میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔” اور واقعی کسی کو نہیں چھوڑا۔ نیب اور ایف آئی اے مخالفین کے خلاف استعمال کی گئیں، میڈیا ٹرائلز عام ہوئے۔ نواز شریف کو نااہل کیا گیا، ان کی بیٹی مریم نواز کو جیل میں ڈالا گیا، بھائی اور بھتیجے کو مقدمات میں الجھایا گیا۔ زرداری کے خلاف پرانے کیسز دوبارہ کھولے گئے، بہن کو گھسیٹا گیا۔ یہاں تک کہ رانا ثنا اللہ پر ہیروئن کا ایسا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے۔ عمران خان اس سب پر فخر کرتے ہوئے کہتے تھے: “پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی طاقتور پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، یہ ہے اصل قانون کی حکمرانی۔”
مگر اقتدار جاتے ہی عمران خان کے خلاف بھی حسبِ معمول وہی روایتی کھیل شروع ہوا تو وہ چیخ اٹھے: “ملک میں آئین اور قانون نہیں۔ اور میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔” یہ منظرنامہ مکافاتِ عمل کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جو ظلم انہوں نے اپنے مخالفین پر کیا، آج وہ خود اسی انجام سے دوچار ہیں۔ قیام سے اب تک یہی کھیل جاری ہے۔ ہر حکمران نے اپنے مخالفین کو کچلا، ہر حکومت نے قانون کو ہتھیار بنایا اور جب اقتدار چھن گیا تو وہی لوگ جو کل دوسروں کو جیلوں میں ڈالتے تھے، آج انہی جیلوں کے در کھٹکھٹا رہے ہیں۔ مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جب طاقت ان کے ہاتھ میں تھی، انصاف کہاں تھا؟
اس انجام کا سب سے بڑا نقصان عوام نے اٹھایا۔ پاکستان میں پچھلے 78 برسوں میں کوئی بھی وزیرِاعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو مفلوج کر دیا، ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہو گئیں۔ جمہوریت کے نام پر ووٹ لیے گئے مگر جمہوری اقدار کو بار بار پامال کیا گیا۔ آج بھی حالات وہیں کھڑے ہیں جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا۔ جو آج مسندِ اقتدار پر ہیں، کل کو مخالف صف میں ہوں گے، اور وہی نعرہ لگائیں گے: “اس ملک میں کوئی آئین اور قانون نہیں۔” طاقت ملے تو قانون جوتے تلے، طاقت چھنے تو زبان پر یہی فریاد۔ پاکستان کی سیاست کا یہی دستور ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ بھی غلط تھا اور جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے، لیکن قصور کسی کا نہیں، سب کا ہے۔ جو بوتا ہے، وہی کاٹتا ہے۔
یہ شیطانی چکر کب ٹوٹے گا؟ حل واضح ہے: اداروں کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا ہوگا، قانون کو سب کے لیے برابر بنانا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی کسی آشیرباد کے بجائے آپس میں بیٹھنا ہوگا۔ ان میں سے کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں، لہٰذا کھلے دل سے اپنے تلخ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ سب کو ایک میثاقِ جمہوریت پر متفق ہوکر اسے محض کاغذ پر تحریر کرنے کے بجائے اس پر واقعی عمل کرنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ یہی لکھے گی: پاکستان میں نہ کل قانون تھا، نہ آج ہے اور شاید کبھی نہیں ہوگا۔ طاقت وقتی ہے، اصول دائمی۔ آج کے حکمران کل کے مجرم بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سوچ نہ بدلی تو یہ سیاست، یہ انتقام اور یہ ناانصافی اسی طرح چلتی رہے گی اور اس کی قیمت ہمیشہ عوام کو چکانی پڑے گی۔ یہی لمحہ ہے—فیصلہ کرنے کا، ورنہ آنے والے برس بھی انہی چیخوں، انہی مقدمات اور انہی دھمکیوں میں گزر جائیں گے۔