GHAG

کیا واقعی جنگ ہوگی؟

اے وسیم خٹک

پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کوئی آج کی بات نہیں۔ جب سے دونوں ممالک کرۂ ارض پر وجود میں آئے ہیں، تب سے ایک عجیب سی کشیدگی کا ماحول جاری ہے۔ ہم اگر تاریخ کو زیادہ نہ بھی کریدیں تو بھی واضح ہے کہ اس خطے میں کبھی مسلمان، کبھی ہندو، کبھی سکھ غالب رہے ہیں، اور پھر انگریزوں نے اپنی شاطرانہ چالوں سے 1858 سے لے کر 1947 تک یہاں براہ راست حکومت کی۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کا آغاز 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہوا تھا، اور 1757ء کی جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر انہوں نے بنگال پر قبضہ جمایا، جو بعد میں پورے ہندوستان کی غلامی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

انگریزوں کے بعد اقتدار کا سوال اٹھا تو ہندو اور مسلمان دونوں اپنی الگ شناخت اور اقتدار کے خواہاں تھے۔ مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ تعلیم، معیشت اور میڈیا کے میدان میں ہندوؤں سے پیچھے تھے۔ سر سید احمد خان نے اسی محرومی کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف مائل کیا اور 1875 میں علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی، جس نے آگے چل کر مسلم شعور کی بنیاد رکھی۔

ہندو چونکہ کاروباری ذہن رکھتے تھے، اخبارات، عدالتیں، اور تعلیمی ادارے ان کے زیر اثر تھے۔ مسلمان اکثر ان کے ماتحت ملازم تھے۔ اسی دوران 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ بنی، جس نے 1940 میں دو قومی نظریہ پیش کیا اور 1947 میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ مگر باؤنڈری کمیشن اور ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے جو سرحدی لکیریں کھینچی گئیں، وہ انگریزوں کی ایسی سازش تھی جس کا خمیازہ آج تک پاکستان اور بھارت بھگت رہے ہیں۔

خاص طور پر کشمیر کا تنازعہ، جو قیام پاکستان کے وقت ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، مگر ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ اس کے نتیجے میں 1947-48، 1965، 1971 اور 1999 کی کارگل جنگ سمیت کئی بار دونوں ممالک آمنے سامنے آئے۔ لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا، اور ترقیاتی بجٹ دفاع پر لگنے لگا۔ آج بھی بھارت کے 70 فیصد سے زیادہ دفاعی ساز و سامان کا رخ پاکستان کی سرحد کی طرف ہے۔

کشمیر کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا جاتا رہا، جبکہ بھارت مسلسل اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے حالات کو مزید سنگین کر دیا۔ اس اقدام کے بعد سے سرحدی جھڑپوں اور سفارتی کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ تنازعہ، پہلگام میں پیش آنے والے واقعے کی آڑ میں، بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک بار پھر میڈیا وار شروع کر دی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی، سفارتی تعلقات کی معطلی، اور سرحدی جارحیت نے خطے کو ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کی تقسیم ہوئی۔ اب اس معاہدے کو متنازع بنانا بھی اسی کشیدگی کا حصہ ہے۔

سوشل میڈیا اور یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر جنگ کو فروغ دینے والے عناصر سرگرم ہو چکے ہیں۔ کچھ لوگ انڈیا جا کر ان کے میڈیا چینلز پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقصد صرف یوٹیوب کی کمائی ہے، انہیں قومی مفاد یا سلامتی سے کوئی غرض نہیں۔

جنگ کبھی حل نہیں ہوتی۔ یہ نسلیں تباہ کرتی ہے۔ آج اگر فلسطین و غزہ کی صورتِ حال دیکھی جائے، یا روس-یوکرین جنگ کا مشاہدہ کیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کا فائدہ صرف اسلحہ بیچنے والوں کو ہوتا ہے، عوام صرف لاشیں گنتے ہیں۔ مگر بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، اگر یہاں جنگ ہوئی تو یہ صرف دو ممالک نہیں، پورا جنوبی ایشیا اس کا خمیازہ بھگتے گا۔

اس لیے عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ جنگ کی باتیں چھوڑ کر امن، ترقی، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل پر توجہ دی جائے۔ دونوں ممالک کی عوام غربت اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ انہیں ریلیف چاہیے، گولہ بارود نہیں۔

اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ وقت دور نہیں جب یہ خطہ ایک بار پھر کسی عالمی طاقت کی کالونی بن جائے گا۔ ہمیں دشمنی چھوڑ کر بھائی چارے کی راہ اپنانی چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں امن کا سورج دیکھ سکیں۔

(6 مئی 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts