بیرسٹر ڈاکٹرعثمان علی
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف سرحدوں پر دشمن کی جارحیت کے سائے منڈلا رہے ہیں اور دوسری طرف ایک مخصوص ٹولہ دانستہ طور پر اندرونی خلفشار کو ہوا دے رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے قومی یکجہتی کی ضرورت کو پہلے سے کہیں بڑھا دیا ہے۔ ایسے وقت میں ملک کو اندرونی استحکام، اداروں پر اعتماد اور عوامی اتحاد کی اشد ضرورت ہے، مگر افسوس کہ کچھ عناصر ایسی روش اختیار کیے ہوئے ہیں جو قومی یکجہتی کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ لوگ اپنی ذاتی انا، سیاسی بغض اور ذہنی زہر کو قومی سلامتی سے بھی بڑا سمجھ بیٹھے ہیں۔
چند جذباتی اور کھوکھلے انقلابی نعروں سے متاثر، خاص طور پر پاکستان کے سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بعض نوجوان، اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے جذباتی حامی اس وقت محض اس بنیاد پر کہ ان کا قائد قانونی گرفت میں ہے، اپنے ہی ملک، اپنی ہی فوج اور اپنے ہی اداروں کو تنقید، تضحیک اور گالیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلایا جانے والا ان کا زہر دشمن کے بیانیے کو تقویت دے رہا ہے۔ جب ملک کی فوج بیرونی محاذ پر دشمن کے مقابل صف آرا ہو تو داخلی محاذ پر نفرت انگیز مہم چلانا قومی مفاد نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی نقصان دہ حکمتِ عملی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس مہم میں بعض ایسے مخصوص افغان عناصر بھی شامل ہو چکے ہیں جو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کا برسوں سے شکار ہو کر ذہنی طور پر زہر آلود ہو چکے ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی ادارے کی پالیسی سے اختلافِ رائے رکھنا ایک جمہوری حق ہے، مگر پورے ادارے کو نشانہ بنا کر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرنا بالکل الگ معاملہ ہے ، اور یہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے بلکہ ایک سنگین جرم بھی ہے۔ ہر باشعور قوم تنقید کی گنجائش رکھتی ہے، مگر وہ کسی طور قومی سلامتی، ریاستی اداروں اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ موجودہ حالات میں اختلافات پسِ پشت ڈال کر صرف ایک بات سوچنے کی ضرورت ہے: ملک کی حفاظت، خودمختاری اور سلامتی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
سوشل میڈیا کے کچھ نام نہاد انقلابی، یوٹیوبی دانشور اور گھسے پٹے نعروں کے قائل خود ساختہ نظریاتی رہنما آج جس بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں، وہ محض اختلافِ رائے نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی عکاسی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں یا تو ریاست سے پرانی رنجشیں ہیں یا وہ سادہ لوحی کے باعث دشمن کے بیانیے کا آلۂ کار بن چکے ہیں۔ ان کی باتیں نہ صرف فوج اور اداروں کی تضحیک پر مبنی ہیں بلکہ ریاستی وجود پر بھی کھلے عام سوال اٹھاتی ہیں۔ درحقیقت یہ ایک خطرناک ذہنی زہر ہے جو نوجوان نسل کو ریاست سے بدظن، اداروں سے متنفر اور قومی شعور سے محروم کر رہا ہے۔ اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ اندرونی سازشی عناصر اور بیرونی دشمن قوتیں بھی سرگرم ہو چکی ہیں، جو اس زہر کو مزید پھیلانے میں دلچسپی رکھتی ہیں تاکہ پاکستان کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب پاکستان کو بیرونی خطرات کا سامنا ہوا، قوم نے اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ ماضی میں اختلافات شدید تر بھی رہے، مقدمات چلے، جلاوطنی ہوئی، یہاں تک کہ بعض سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں بھی دی گئیں، مگر ان تمام تر زیادتیوں کے باوجود کسی نے ریاست کو گالیاں نہیں دیں اور نہ ہی دشمن کی زبان بولی۔ لیکن افسوس، شاید تاریخ میں پہلی بار ایسا منظر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک سابق وزیرِ اعظم کے حامی، جنگ جیسے نازک حالات میں، اپنی ہی فوج کی حمایت کے بجائے دشمن کا بیانیہ اپنا رہے ہیں۔ یہ محض سیاسی مخالفت نہیں بلکہ ایک خطرناک ذہنی انحراف ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
یہ لمحہ ہمارے لیے بطورِ قوم ایک کڑا امتحان ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم اپنے سیاسی اختلافات کو قومی وحدت پر ترجیح دیں گے؟ کیا ایک فرد کی گرفتاری یا رہائی کو ملک کی سلامتی، یکجہتی اور وقار سے بڑا سمجھا جائے گا؟ کیا ہم واقعی اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اس نازک موڑ پر دشمن کا بیانیہ اپنے ہی الفاظ میں دہرانے لگیں؟ آج ہر باشعور پاکستانی کو سوچنا ہوگا کہ کیا کسی فرد یا جماعت کی محبت میں ہم اس حد تک جا سکتے ہیں کہ اپنے ملک، اپنی فوج اور اپنے مستقبل کو خود ہی خطرے میں ڈال دیں؟ اگر کل وہی لوگ دوبارہ اقتدار میں آ بھی جاتے ہیں تو کس منہ سے اسی فوج، اسی آئین اور اسی ریاستی نظام کے ساتھ حکومت کریں گے جسے وہ آج عوام میں رسوا کر رہے ہیں؟ اور کیا واقعی یہ تصور قابلِ قبول ہے کہ جو آج اداروں کی بنیادیں ہلا رہے ہیں، وہ کل انہیں سنبھالنے کے قابل ہوں گے؟
یہ وقت، یہ حالات اور یہ رویے خود فوج اور ریاستی اداروں کے لیے بھی سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ سیاست میں بار بار کی مداخلت، من پسند چہروں کو آگے لانا اور غیر فطری اتحادوں کی تشکیل بظاہر وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر اس کے طویل المدت نتائج ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ تاریخ بارہا یہ دکھا چکی ہے کہ وہ عناصر جو وقتی مفاد کے تحت پروان چڑھائے گئے، بعد ازاں اسی ریاست، اسی نظام اور اسی قوم کو کاٹنے والے عفریت بن گئے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان تلخ تجربات سے سبق سیکھیں، کیونکہ مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں رہی۔
حکومت کو چاہیے کہ اس نازک گھڑی میں ملک دشمن بیانیوں کو کچلنے میں کوئی نرمی نہ برتے۔ جو عناصر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے زہر آلود مہمات چلا رہے ہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق فوری اور فیصلہ کن کارروائی ہونی چاہیے۔ ریاستی سالمیت پر سمجھوتہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
ساتھ ہی عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ عقل، فہم اور تدبر سے کام لیں۔ سیاسی عقیدت کو اتنا نہ بڑھائیں کہ وہ حب الوطن کی روح کو نگل جائے۔ اگر آج ہم نے اپنے اصل دشمن کو پہچاننے کے بجائے باہمی نفرت، تعصب اور اندھی عقیدت کو ترجیح دی تو نقصان کسی ایک جماعت یا ادارے کا نہیں بلکہ پوری ریاستِ پاکستان کا ہو گا۔
یاد رکھیے: ملک ہے تو سب کچھ ہے؛ خدانخواستہ، اگر یہ نہ رہا تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔
(9 مئی 2025)