GHAG

Editorial

ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف ایک اور پروپیگنڈا مہم ؟

حکومت پاکستان کی جانب سے گزشتہ روز ملک بھر میں 10 مئی کی پاکستانی جوابی کارروائی کی “جیت” کی خوشی میں وسیع پیمانے پر یوم تشکر کو منایا گیا۔ اس موقع پر ہر علاقے ، ہر نظریے ، ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور صف بندی کو زبردست انداز میں سراہا تاہم بعض طاقتور پاکستان مخالف حلقوں نے اس دوران ایک منظم میڈیا کمپین چلاتے ہوئے پاکستانی افواج کے اس کریڈٹ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جس کا نہ صرف پاکستان کے عوام کی اکثریت بلکہ عالمی برادری اور انٹرنیشنل میڈیا مشینری معترف ہوئی ہیں ۔ اس ریاست مخالف مہم جوئی میں بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق اہم عہدیداروں اور یوٹیوبرز کے علاوہ پاکستان کے مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا کے بعض عناصر نے اہم کردار ادا کیا ۔ اس مہم جوئی کے دوران حقائق کے برعکس اپنی خواہشات پر مبنی مندرجہ ذیل پروپیگنڈا میٹیریل کو استعمال کیا گیا۔
1 : کہا گیا کہ بھارت نے پاکستان کو 5 اور 6 مئی کو آگاہ کردیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے گا اور پاکستان نے “خاموش” رہنے کی یقین دہانی کرادی تھی۔
2 : یہ کہ پاکستان کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھارتی حملوں کے بعد جوابی کارروائی کے موڈ میں نہیں تھے مگر ایئر فورس کے چیف نے ردعمل دینے کا فیصلہ کیا اور اب حکومت ، جی ایچ کیو کریڈٹ لے رہی ہیں۔
3 : یہ کہ وفاقی حکومت کے عہدے داروں رانا ثنا اللہ ، عطا تارڑ اور اسحاق ڈار نے آن دی ریکارڈ کہا تھا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور بھارتی طیارے گرانے کے بعد حساب برابر ہوگیا ہے مگر آرمی نورخان ائیر بیس پر حملے کے بعد ایکشن میں دکھائی دی۔
4 : یہ کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ جس فتح کا جشن منا رہی ہے حقائق اس کے برعکس ہیں اور بھارت آیندہ چند دنوں میں اصل جنگ کا آغاز کرے گا۔
5 : یہ کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان کے پاس جرگہ بھیجا اور ان کو اس کے بدلے رہائی کی یقین دہانی کرادی ۔ ساتھ میں پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کی فنڈنگ کی گئی۔
6 : یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت بھارت کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہوئی اور اہم عہدے داروں کے درمیان رابطے ہوئے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
اب اس تناظر میں مندرجہ ذیل نکات ، زمینی حقائق اور پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہیں ۔
1 : پہلی بات تو یہ کہ جو عناصر ہو بہو ایک ہی وقت میں ایک ہی بیانیہ یا پروپیگنڈا پر اتر آئے ہیں وہ ایک ہی مخصوص پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں یا ان کے ہمنوا ہیں اس لیے وہ ریاست کو اس کے باوجود ڈس کریڈٹ کرنے کی مہم پر نکل آئے ہیں کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کا میڈیا پاکستان کی عسکری بالادستی اور پلاننگ کا اعتراف کرتی دکھائی دیتی ہے۔
2 : پاکستان کو پیشگی اطلاع دینے کی “بحث” محض بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے ایک بیان پر مشتمل مبہم سا حصہ ہے جس کو بہت “معتبر” سمجھ کر کی بورڈ واریئرز کے علاوہ نجم سیٹھی جیسے سنجیدہ تجزیہ کار نے بھی بطور حوالہ استعمال کیا۔
3 : پاکستان نے بھارت کا کتنا نقصان کیا اس پر امریکی، برطانوی ، روسی ، چینی اور عرب میڈیا یہاں تک کہ بھارتی کی بے شمار رپورٹس ان دی ریکارڈ موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور تمام رپورٹس میں نہ صرف پاکستان کی عسکری بالادستی کا اعتراف کیا گیا ہے بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ اس تمام صورتحال میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ہی لیڈنگ رول ادا کیا ۔
3 : مذکورہ مہم جوئی میں شریک افراد اپنے پروپیگنڈا کے دوران خود ہی تضاد بیانی سے دوچار رہے ۔ مثال کے طور ایک طرف وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو سسٹم اور سٹیٹ کے اندر جیل میں قید ایک لیڈر کے معاملات کے تناظر میں سب سے طاقتور شخصیت قرار دیتے رہے تو دوسری جانب ایک منظم دفاعی اور ادارہ جاتی نظام کے ہوتے ہوئے اسی سسٹم کے ایک ایئر چیف کو ” بغض معاویہ” کے مصداق ڈسپلن سے باہر دکھانے کی کوشش کرتے رہے ۔ ایک وقت میں یہ لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر ہی تمام معاملات چلاتے آرہے ہیں اور دوسری جانب افغانستان کی عبوری حکومت سے متعلق اطلاعات بھی غلط انداز میں پیش کی گئی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ بات ان دی ریکارڈ ہے کہ پہلگام حملہ کے بعد بھارت کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کابل گئے تھے مگر یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا اور یہ بھی کہ اس سے اگلے روز جب پاکستان کا ایک اہم وفد کابل گیا تو وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت متعدد دیگر عہدیداروں نے واضح کیا کہ تمام تر کشیدگی اور ناراضگی کے باوجود افغانستان پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا ساتھ نہیں دے گا ۔ یہی بات بعد میں جے شنکر کو امیر خان متقی نے اس وقت بتائی جب جے شنکر نے بعض دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کی طرح ان سے بھی رابطہ کیا تھا ۔جہاں تک اس کے بعد ایک نائب افغان وزیر داخلہ کے دورہ دہلی سے متعلق قیاس آرائیوں کا تعلق ہے یہ خبر بھی دہلی ہی سے فیڈ کرائی گئی تھی تاکہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو مجوزہ ہم آہنگی کی کوششیں چل پڑی ہیں ان کو متنازعہ بنایا جائے ۔ ان کوششوں میں گزشتہ ہفتے کی وہ خبر بھارت کے لیے سفارتی موت کی برابر ہے جس کے مطابق پاکستان اور چین نے کابل میں ہونے والے سہ ملکی مذاکرات کے دوران افغانستان کو سی پیک میں شامل کرنے کی عملی پیشکش کی اور اس سلسلے میں اسی مہینے اسلام آباد میں ایک اہم مذاکراتی عمل شیڈول طے پایا ہے ۔ اس حد تو بات درست ہے کہ حال ہی میں نایب افغان وزیر دہلی گئے مگر ان کے دورے کے بارے میں افغانستان اور پاکستان دونوں کے متعلقہ حکام کو علم ہے کہ وہ ان تجارتی معاملات سے متعلق ہے جو کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان پاکستان کے راستے ہوتے آرہے ہیں اور حالیہ جنگ کے بعد وہ سلسلہ بند ہوگیا ہے ۔ اس لیے اس تمام معاملے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
اس تمام منظر نامے میں ایک بات پھر سے ثابت ہوگئی ہے کہ جو عناصر ریاست کی مخالفت میں ایک مخصوص پارٹی کی سرپرستی میں اس حد تک جاسکتے ہیں کہ بھارت جیسے ملک کے مقابلے میں پاکستان کو “ڈی ویلیو” کیا جائے قومی اتفاق رائے کے نام ونہاد کوششوں کے نام پر ان عناصر کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی اس لیے ان کے ساتھ پرانے طریقے سے ہی نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک قومی اتفاق رائے اور اتحاد کا تعلق ہے بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں یہ اب بھی بہت بہتر ہے بلکہ مثالی ہی ہے اس لیے ان تمام پروپیگنڈا مشینوں کو ہمیشہ کے لیے “بند” کرنے ہی میں سب کا فائدہ ہے۔

(مئی 19، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts