بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
پشتون جنوبی اور وسطی ایشیا کی سب سے بڑی نسلی اقوام میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی آبادی پاکستان، افغانستان اور دنیا بھر میں پچاس ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاریخی طور پر یہ مہمان نوازی، غیرت، وفاداری، پناہ، انصاف، ظلم کے خلاف مزاحمت اور جرگے کے اصول پر مبنی اجتماعی فیصلوں جیسے گہرے اقدار کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی زندگی میں عزت، احترام، دلیری اور روایت کی پاسداری کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ پشتونوں نے ایک طویل اور دردناک تاریخ جھیلی ہے، جو جنگ، محرومی اور داخلی تضادات پر مشتمل ہے۔ اپنی صلاحیتوں اور ثقافتی ورثے کے باوجود، پشتون آج بھی پسماندگی، عدم برداشت اور داخلی زوال کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے مختلف وجوہات کی بنا پر وہ بہت سی اقدار بھی کھو چکے ہیں، خصوصاً نوجوان نسل کی اکثریت ان اقدار سے بالکل ناواقف نظر آتی ہے۔
کہنے کو یہ آسان ہے کہ تمام الزام تاریخ یا جغرافیائی سیاست پر ڈال دیا جائے، نوآبادیاتی طاقتیں، غیرملکی مداخلتیں یا ریاستی غفلت کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ یہ سب بلاشبہ حقیقی عوامل ہیں، مگر تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پشتونوں نے خود بھی بعض ایسے راستے اختیار کیے جنہوں نے ان کے زخموں کو مزید گہرا کیا اور ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
کئی عظیم رہنماؤں نے انہیں بہتر راہ دکھانے کی کوشش کی۔ باچا خان، جدید پشتون تاریخ کا ایک روشن نام، نے اپنی زندگی تعلیم، عدم تشدد اور انصاف کے اصولوں کے لیے وقف کی۔ انہوں نے اسکول قائم کیے، امن کا پیغام دیا اور اس وقت ایک پُرامن تحریک چلائی جب ہر طرف مسلح جدوجہد کا غلبہ تھا۔ وہ بارہا خبردار کرتے رہے کہ اگر علم، برداشت اور قانون کو اختیار نہ کیا گیا تو پشتونوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ مگر افسوس، بہت سے لوگوں نے ان کے پیغام کو رد کر کے بندوق کو ترجیح دی۔ کتابوں کے بجائے ہتھیار اٹھا لیے گئے اور قانون کی جگہ نعرہ لگا: “میری بندوق ہی میرا قانون ہے۔” انہوں نے غیرت اور انصاف کو قتل و قتال سے تعبیر کیا اور اپنے مقاصد کے لیے انہیں “بہادر، بہادر” کہنے والوں کو اپنے دونوں کندھے بخوشی پیش کر دیے، جنہوں نے پھر انہیں پوری طرح اور بری طرح استعمال کیا۔
یہ طرزِ فکر، تشدد کو رومانویت دینے اور تنقیدی سوچ کو رد کرنے والا، انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ چاہے قبائلی علاقے ہوں یا شہری مراکز، نسل در نسل نوجوان ایسی طاقت کے پجاری بنے جو محض دکھاوا کرتے ہیں، مگر فکری گہرائی سے خالی ہوتے ہیں۔ غیرت کی وہ ثقافت جو کبھی سماج کی حفاظت کرتی تھی، آج اکثر انا، انتقام، اور بے خوفی کا جواز بن چکی ہے۔ جرگے، جو ماضی میں انصاف کے ضامن تھے، اب اکثر کمزوروں کو خاموش کرنے اور روایت کو سچ پر ترجیح دینے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
نوجوانوں کی حالت مزید تشویش ناک ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالیں تو منظر اور بھی خوفناک دکھائی دیتا ہے: فحاشی اور تشدد کی پرستش ان کی دنیا پر حاوی ہے۔ بےہودہ مزاح، جارحانہ رویے اور ہتھیاروں یا چمک دمک والی زندگیوں کی نمائش سب سے زیادہ توجہ سمیٹتی ہے۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے اور کسی نظریے کے بطور فیشن ’’انقلاب، انقلاب‘‘ کے نعرے لگتے ہیں اور مخالفِ فکر افراد کے ساتھ بدتہذیبی و بدتمیزی عام ہے۔ علمی گفتگو، شاعری اور سوچ بچار اس شور میں دب چکے ہیں۔ جب کوئی نسل تفریح کو روشنی پر ترجیح دیتی ہے تو وہ نہ سوچنے کے قابل رہتی ہے، نہ ذمہ داری لینے کے۔
اس ڈگمگاتی کشتی کو بچانے کا واحد راستہ تعلیم ہے، مگر بدقسمتی سے یہی راستہ مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ شرحِ خواندگی، خصوصاً لڑکیوں میں، اب بھی افسوسناک حد تک کم ہے۔ اسکول تو موجود ہیں، مگر معیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں تعلیم دی جاتی ہے، وہ بھی رٹے، سختی اور دنیا سے کٹے ہوئے نصاب پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں کو سوچنا، تجزیہ کرنا اور تخلیق کرنا نہ سکھایا جائے تو وہ دنیا کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ بدقسمتی سے تعلیم کسی کی بھی ترجیح نہیں ہے۔
اس کے باوجود، ان تمام اندھیروں میں امید کی ایک کرن باقی ہے۔ پشتونوں کی تاریخ ایسے عظیم دماغوں سے بھری ہوئی ہے۔ خوشحال خان خٹک اور غنی خان جیسے شاعر، باچا خان جیسے مصلح، اور بے شمار بے نام معلم، مائیں، اور کارکن، جو خاموشی سے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ان کی میراث یہ ثابت کرتی ہے کہ پشتون نااہل نہیں۔ وہ صرف اپنی پوری صلاحیت کو استعمال نہیں کر رہے۔
بس بہت ہو چکا ہے، اب بے رحم خود احتسابی کا وقت آن پہنچا ہے۔پشتونوں کو چاہیے کہ وہ ہر ناکامی کا الزام دوسروں پر ڈالنے کا سلسلہ بند کریں۔ تاریخ کو صرف فخر کے لیے نہیں، سبق کے لیے بھی پڑھیں۔ انقلاب کے کھوکھلے نعروں کو رد کریں۔ “بہادر، بہادر” کے نام پر دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلنا فوری طور پر ترک کریں۔ دنیا ان کی نجات دہندہ نہیں؛ اگر اٹھنا ہے تو خود اٹھنا ہوگا۔
سوچ سے ابتدا کریں۔ اپنے بچوں، بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کو تعلیم دیں۔ انہیں سوال کرنا، پڑھنا، تخلیق کرنا، اور سوچنا سکھائیں۔ بندوق کی جگہ کتاب، نعرے کی جگہ قانون، اور تشدد کی جگہ مکالمہ اپنائیں۔ غیرت کا مطلب اب انتقام یا غرور نہیں، بلکہ دانشمندی اور انصاف ہونا چاہیے۔
پشتونوں میں بے پناہ صلاحیت، ہمت، اور ثقافتی دولت موجود ہے۔ مگر اگر خود احتساب، نظم، اور تعلیم نہ آئی، تو یہ صلاحیت ضائع ہی ہوتی رہے گی۔ فیصلہ واضح ہے: وقار کے ساتھ ترقی کریں، یا ماضی کی کھوکھلی عظمتوں کے فریب میں گرفتار رہیں۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ پشتونوں کو فیصلہ کرنا ہے: کیا وہ بھی آگے بڑھیں گے، یا اپنی ہی کوتاہیوں کے ہاتھوں پیچھے رہ جائیں گے؟