حسب توقع پاکستان کے دو شورش زدہ صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگرد حملوں کا سلسلہ پھر سے تیز ہونے لگا ہے اور پاکستان کے سیکورٹی ادارے اس لہر کو بھارت اسپناسرڈ ٹیررازم کا نام دے رہے ہیں ۔ سیکورٹی اداروں کا خیال ہے کہ بھارت نے 10 مئی کی شکست کے بعد ان دو صوبوں میں پہلے سے موجود اپنی پراکسیز کو متحرک کردیا ہے ۔ ان پراکسیز میں سیکیورٹی اداروں کے بقول کلعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سرفہرست ہیں ۔ گزشتہ روز جہاں ایک طرف بلوچستان کے علاقے خضدار میں ایک سکول وین پر دھماکہ کرتے ہوئے تقریباً نصف درجن بچوں ، دیگر کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا گیا تو دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک حملے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار شہید کیے گئے ۔ پختونخوا کے مختلف قبائلی اور جنوبی اضلاع سے متعدد سرکاری اہلکاروں کو اٹھوانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ۔ اسی دوران شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ایک مبینہ ڈرون کارروائی بھی سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث رہی جس میں متعدد بچے شہید ہوئے ہیں ۔ اس ضمن میں سیکیورٹی حکام نے رسمی طور پر موقف اختیار کیا ہے کہ یہ کارروائی خوارج نے اپنے پاس موجود کواڈ کاپٹر کی سہولت کے ذریعے کی ہے تاکہ عوام اور فوج کے درمیان بدگمانی پیدا کی جائے اور اس واقعے کو غلط رنگ دیکر س کی ذمہ داری فورسز پر ڈال دی جائے ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ میر علی واقعے کے بعد باقاعدہ تحقیقات کی گئیں جس سے واضح انداز میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ خوارج کی کارروائی ہے ۔ بیان میں ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔
دوسری جانب پاکستان کی ریاست نے خضدار حملے کا انتہائی سخت نوٹس لیتے ہوئے اس قسم کے واقعات کو ” انڈین اسپناسرڈ ٹیررازم” کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف ، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور متعدد وفاقی وزراء نے خضدار واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پہلے سے شیڈول شدہ سرگرمیاں معطل کرکے کویٹہ کا ہنگامی دورہ کیا جہاں وزیر اعلیٰ اور دیگر کی موجودگی میں اس واقعے سمیت بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی اور اہم ریاستی عہدے داروں نے حملے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت بھی کی ۔
یہ حملے اور واقعات ایک ایسے وقت میں کرایے گیے جب پاکستان میں 10 میء کے تناظر میں جشن کا ماحول ہے اور اسی دوران بیجنگ میں پاکستان ، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر اہم ترین مذاکراتی عمل جاری تھا ۔ اس تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بھارت ان واقعات میں براہ راست ملوث ہے اور وہ حسب توقع پاکستان کی فورسز کے علاوہ معصوم شہریوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ پاکستانی ریاست اور عوام کے درمیان جو ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے اسے سبوتاژ کرتے ہوئے عوام کو ریاست سے متنفر کیا جائے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ داخلی سیکیورٹی اور استحکام سے جڑے معاملات پر خصوصی توجہ دی جائے اور نئے حالات اور چیلنجر کو سامنے رکھتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے نئے مجوزہ ورژن کو سامنے رکھ کر عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک پُرامن اور مستحکم پاکستان کے نئے سفر کا آغاز کیا جائے ۔
(مئی 25، 2025)