عقیل یوسفزئی
یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ “کتاب بیزاری” کے اس دور میں غم روزگار میں بعض مصروف صحافی اور شاعر اپنے قارئین کو مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتابیں وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہتے ہیں جو کہ اپنی مٹی اور عوام کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار سمجھا جاتا ہے ۔ حال ہی میں خیبرپختونخوا کے دو نامور صحافیوں اور شعراء شمش مومند اور روخان یوسفزئی کی دو مختلف کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن کو قارئین نے موضوعات کے تناظر میں کافی پسند کیا ہے ۔ روخان یوسفزئی کی کتاب ” د رنا کور” پشتو جبکہ شمس مومند کی تخلیقی کاوش ” جنگ مسلسل” اردو زبان میں شائع ہوئی ہیں ۔ دونوں معتبر لکھاریوں کی اس سے قبل بھی نثر اور شاعری میں متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں اس لیے وہ قارئین کے لیے اجنبی نہیں ہیں ۔ دونوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بیک وقت پشتو اور اردو میں نہ صرف لکھتے رہے ہیں بلکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پر برسوں سے بولتے بھی آرہے ہیں ۔ کوئی ایک سال قبل شمس مومند کی ایک اور کاوش ” پختونخوا کے وسائل” نے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں کافی شہرت پائی ہے حالیہ کتاب میں انہوں نے مختصر مگر جامع انداز میں پختون خطے پر 45 سالوں سے مسلط جنگوں کے اثرات کو موضوع بحث بنایا ہوا ہے اور ایک صحافی کی حیثیت سے اپنی یادداشت اور مشاہدات بھی پیش کی ہیں ۔ انہوں نے اپنے انداز تحریر کے مطابق لمبی چھوڑی تفصیلات لکھنے سے گریز کیا ہے کیونکہ آج کے دور میں لوگ زیادہ تفصیلات پڑھنا ” گوارا ” نہیں کرتے ۔ یہ شمس مومند کی ساتویں کتاب ہے اور قابل ستائش بات یہ ہے کہ اُردو زبان میں شائع ہوئی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے دوسرے زبانوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھی مستفید ہوسکیں گے ۔
اباسین یوسفزئی کے بقول زیر نظر کتاب خطے میں جاری جنگ کے اثرات پر ایک مدلل اور تحقیق پر مبنی دستاویز ہے اور یہ کہ یہ ان کی پہلی تصانیف کی طرح بطور ریفرنس استعمال ہوگی۔
جہاں تک روخان یوسفزئی کی ادبی ، ثقافتی اور صحافتی خدمات کا تعلق ہے اس کی تاریخ نہ صرف بہت لمبی ہے بلکہ ان کو قدرت نے ہمہ گیر صفات سے نوازا ہے ۔ وہ ایک آل راؤنڈر ٹائپ کے ایسے لکھاری ہیں جن کی یادداشت کی صلاحیت کو بجا طور پر ” قابل رشک ” قرار دیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کتابوں کے علاوہ قومی اخبارات میں اس خطے کی سیاست ، ثقافت اور شاعری پر جو کچھ لکھا ہے وہ قابل ستائش ہیں تاہم بوجوہ ان کی اس طرح حوصلہ افزائی نہیں کی گئی جو کہ ہونی چاہیے تھی مگر ملنگ مزاج روخان یوسفزئی نے نہ کوئی ستائش طلب کی اور نا ہی کوئی صلہ مانگا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ اس قسم کے لکھاریوں کی موجودگی آج کے دور میں غنیمت سے کم نہیں ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ سوشل میڈیا کی جاری ” ہلڑ بازی” میں ایسے لکھاری اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
(23 مئی 2025