GHAG

Pakistan Geography

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور اندرونی سازشیں

اے وسیم خٹک
پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہیں ان کے جغرافیائی محلِ وقوع نے عالمی سیاست میں غیر معمولی اہمیت عطا کی ہے۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد قائم ہونے والا یہ ملک محض ایک نظریاتی ریاست ہی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک پوزیشن کا حامل ملک بھی ہے۔ اس کی سرحدیں مشرق میں بھارت، مغرب میں افغانستان و ایران، شمال میں چین، اور جنوب میں بحیرۂ عرب سے ملتی ہیں۔ اس منفرد جغرافیائی حیثیت نے پاکستان کو بیک وقت وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ سے جوڑ دیا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عالمی طاقتوں کو پاکستان کے گرد گھومنے پر مجبور کرتا ہے۔

اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو پاکستان کا یہ محل وقوع نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی معاملات میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف اپنی حکمت عملی میں پاکستان کو ایک کلیدی کردار دیا۔ افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف جہاد سے لے کر آج کے دور میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) تک، پاکستان ہمیشہ بڑی طاقتوں کے مفادات کا مرکز رہا ہے۔ امریکہ کے لیے پاکستان ایک جغرافیائی راستہ ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی دیتا ہے، چین کے لیے یہ سمندر تک پہنچنے کا آسان ترین اور محفوظ ترین راستہ ہے، بھارت کے لیے یہ ایک اسٹریٹیجک حریف ہے جس سے سرحدی، نظریاتی اور سیاسی تنازعات وابستہ ہیں، جب کہ روس، ایران اور افغانستان کے لیے بھی پاکستان کی اہمیت ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان نہ صرف اقتصادی و سفارتی داؤپیچ کا مرکز ہے بلکہ فوجی، سیاسی اور نظریاتی دباؤ کا بھی مستقل شکار ہے۔ بیرونی دشمن ہر وقت پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں، افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی کارروائیاں، ایران کے ساتھ سرحدی کشیدگیاں، اور امریکی دباؤ ۔ یہ سب عوامل پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کرتے ہیں۔

مگر اصل خطرہ صرف بیرونی نہیں، بلکہ اندرونی دشمن بھی کسی سے کم نہیں۔ بدعنوانی، اقربا پروری، لسانی و فرقہ وارانہ تعصبات، سیاسی انتشار، عدالتی نظام کی کمزوری، تعلیمی پسماندگی، اور میڈیا میں سنجیدگی کی کمی جیسے عوامل پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اندرونی دشمن اکثر بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ وہ افراد یا گروہ جو قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں، وہ نادانستہ طور پر دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

اسی تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کا کردار نہایت افسوسناک اور خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر جیسے المناک واقعات میں اس جماعت کے کارکنوں اور قیادت نے ریاستی اداروں کے خلاف جس شدت اور نفرت سے کاروائیاں کیں، وہ بلاشبہ اندرونی دشمنی کی بدترین مثالیں ہیں۔ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس، اور قومی یادگاروں پر حملے، سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف منظم مہم، اور عوام میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی یہ سب وہ اقدامات ہیں جن سے دشمن قوتوں کو فائدہ اور قوم کو نقصان پہنچا۔ بھارت جیسے ازلی دشمن کے ساتھ کشیدگی کے دوران بھی اس جماعت کا رویہ قومی وحدت کی بجائے تقسیم اور فتنہ انگیزی کا مظہر رہا۔ ملکی املاک کو جو نقصان تحریک انصاف کے کارکنان نے پہنچایا، اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے، اور یہ سب اس بات کا غماز ہے کہ جب سیاسی مفادات قومی سلامتی پر غالب آ جائیں، تو قوم کے اندر ہی ایک اور محاذ کھل جاتا ہے۔

ملک کے مختلف حصوں میں عوام کے درمیان اختلافات کو ابھارنا، مسلکی تقسیم کو ہوا دینا، صوبائی تعصبات کو بڑھاوا دینا، اور ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کو فروغ دینا یہ سب وہ خطرناک رجحانات ہیں جو کسی بھی بیرونی جارحیت سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک قوم جب اندر سے تقسیم ہو جائے تو بیرونی دشمن کے لیے اسے زیر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

ایسے میں قومی یکجہتی، سیاسی بصیرت، اور عوامی شعور کی بیداری ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان کے عوام باصلاحیت، باہمت اور پرعزم ہیں۔ ملک میں ایک بڑی نوجوان آبادی موجود ہے جو اگر صحیح سمت میں رہنمائی پائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کریں، انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنائیں، معاشی خودمختاری کی طرف بڑھیں، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسے قومی بیانیے کو فروغ دیں جو اتحاد، ایثار، اور حب الوطنی پر مبنی ہو۔

آج پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ عالمی طاقتوں کی نظریں اس پر مرکوز ہیں، کچھ اپنے مفادات کے لیے، اور کچھ اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے۔ ان حالات میں ریاست اور عوام دونوں کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی ہوں گی۔ صرف فوجی طاقت ہی نہیں بلکہ فکری، اخلاقی، اور تعلیمی طاقت بھی ملک کی بقا کی ضامن بن سکتی ہے۔ دشمن چاہے باہر کا ہو یا اندر کا، اس کا مقابلہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب قوم ایک پیج پر ہو، قیادت دیانتدار ہو، اور ادارے مضبوط ہوں۔

پاکستان کی بقا اور ترقی اسی میں ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت میں تبدیل کرے۔ اس کے لیے اندرونی استحکام، قومی اتفاق، اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنی سمت درست کر لی تو یہی جغرافیائی محلِ وقوع ہمیں دنیا کی بڑی طاقت بنا سکتا ہے، اور اگر ہم نے غفلت برتی تو یہی محلِ وقوع ہمیں عالمی سیاست کا ایندھن بھی بنا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

کورکمانڈرز کانفرنس

 بلوچستان،پختونخوا میں بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعادہ شہدا ء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ، پاکستان کے عوام کا

Read More »