اے وسیم خٹک
کئی روز سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور متوقع فیصلہ ایک سے دو ہفتوں میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا، مگر اگر واقعی ایسا فیصلہ ہوتا ہے، تو اس کے نہایت اہم، دور رس اور علامتی نتائج ہوں گے۔
جنرل فیض حمید وہ شخصیت ہیں جن پر نہ صرف ملکی سیاست میں مداخلت کے الزامات لگے بلکہ 9 مئی 2023 کے سانحات کے پس منظر میں ان کا کردار بھی مسلسل زیر بحث رہا ہے۔ اگرچہ ان پر براہ راست کسی حملے کی منصوبہ بندی یا شرکت کے شواہد منظرِ عام پر نہیں آئے، تاہم ان کی بعض پالیسیوں اور اقدامات کو ان واقعات کی بنیاد یا پیش خیمہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت نہ صرف حاضر سروس بلکہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی قانون کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اپنے دورِ ملازمت میں ایسے اقدامات کے مرتکب ہوئے ہوں جن کے اثرات بعد از ریٹائرمنٹ بھی ریاستی اداروں یا قومی سلامتی پر اثرانداز ہوتے ہوں۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 245 فوج کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کا پابند بناتا ہے، اور اگر کوئی افسر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا آئینی حدود سے تجاوز کرے، تو اس کے خلاف کورٹ مارشل آئینی اور قانونی طور پر بالکل درست اقدام ہوگا۔
آرمی ایکٹ کی دفعات 2 اور 59 کے تحت ریٹائرڈ افسر کو بھی عدالتِ عسکری میں طلب کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ دورانِ ملازمت کسی سنگین خلاف ورزی یا سازش میں ملوث رہا ہو۔ عدالتیں بھی یہ اصول کئی بار واضح کر چکی ہیں کہ حساس عہدوں پر فائز افراد کے اقدامات کا احتساب نہایت ضروری ہے تاکہ ریاستی اداروں کی ساکھ اور آئینی بالادستی برقرار رہ سکے۔
جہاں تک جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے افراد کا تعلق ہے، ان کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیجز، سوشل میڈیا شواہد اور عینی شاہدین کے بیانات کی بنیاد پر کی جا چکی ہے۔ ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات زیرِ سماعت ہیں اور بعض پر فردِ جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔ چند عناصر کو ممکنہ طور پر فوجی عدالتوں میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ فوجی تنصیبات پر حملہ ایک حساس اور سنگین جرم ہے، جس کا تعلق براہ راست قومی سلامتی سے جُڑا ہوتا ہے۔
یہ امر ریاست کے لیے نہایت اہم ہے کہ قانون کا اطلاق صرف عام کارکنان پر نہ ہو بلکہ وہ اعلیٰ عہدیداران اور ممکنہ سرپرست عناصر بھی انصاف کے کٹہرے میں آئیں جنہوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ان حملوں کی راہ ہموار کی۔ ایک مستحکم اور منصف ریاست کی پہچان یہ ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو، چاہے وہ ایک سپاہی ہو یا ایک جنرل۔
سیاسی منظرنامے پر اس فیصلے کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل فیض حمید کو تحریکِ انصاف کے سیاسی بیانیے کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی پی ٹی آئی کے حلقوں میں شدید اضطراب اور غیر یقینی فضا پیدا کر سکتی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل فیض کی مبینہ حمایت پارٹی کی پشت پناہی میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ ان کے منظر سے ہٹنے یا ان پر قانونی گرفت مضبوط ہونے سے پارٹی کی تنظیمی ساخت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
تاہم ریاستی اداروں کا داخلی احتساب طویل المدتی طور پر ادارہ جاتی اصلاحات اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر فوج خود اپنے دائرے میں موجود طاقتور عناصر کا احتساب کرے، تو یہ ایک مثبت مثال بنے گی کہ ریاست طاقتوروں کے لیے بھی قانون کی عملداری کو یقینی بناتی ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ آئین و قانون کی بالادستی کا تصور بھی مضبوط ہوگا۔
آخر میں اگر جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ واقعی سامنے آتا ہے، تو یہ ایک تاریخی اقدام ہوگا جو نہ صرف 9 مئی کے سانحات کے پسِ منظر کو واضح کرے گا بلکہ اس پیغام کا بھی حامل ہوگا کہ ریاستی ادارے کسی بھی غیر آئینی کردار کو برداشت نہیں کریں گے، چاہے وہ ماضی میں کتنا ہی طاقتور کیوں نہ رہا ہو۔ یہی راستہ قوم، قانون اور اداروں کے درمیان اعتماد کو بحال کر سکتا ہے اور یہی حقیقی ریاستی استحکام کی بنیاد ہے۔