GHAG

قبائلی اضلاع کا مستقبل اور درکار اقدامات

قبائلی اضلاع کا مستقبل اور درکار اقدامات

سال 2018 کو سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل ایک حساس جغرافیائی پٹی کو قومی اتفاق رائے سے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کردیا گیا تو اس فیصلے کو پاکستان کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کے تناظر میں دیکھا گیا تاہم عوام کو یہ توقع بھی تھی کہ فاٹا انضمام کے بعد نہ صرف یہ کہ سیکورٹی کے مسائل حل ہوں گے بلکہ سول اداروں کی توسیع کے باعث ان کی سماجی اور معاشی مشکلات میں بھی کمی واقع ہوگی۔

انضمام کی سفارشات کے لیے قائم کی گئی ” سرتاج عزیز کمیٹی” نے ان اضلاع کی تعمیر وترقی کے لیے پورا ایک روڈ میپ تیار کرکے دیا تھا جس پر پارلیمنٹ کی اکثریت نے واضح انداز میں لبّیک کہتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا ۔ طے پایا کہ ہر سال ان اضلاع کی تعمیر وترقی کے لیے 110 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے اور یہ رقم این ایف سی ایوارڈ کے تحت دی جائے گی ۔ تاہم اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے اس ضمن میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی اور یوں قبائلی علاقے درکار فنڈز کی بروقت فراہمی سے محروم ہونا شروع ہوگئے حالانکہ اس دورمیں پی ٹی آئی وفاق اور صوبے دونوں میں برسرِ اقتدار تھی ۔

تعمیر وترقی تو دور کی بات پی ٹی آئی کی دونوں حکومتوں نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ان شورش زدہ علاقوں کی سیکورٹی کے لیے درکار اقدامات پر بھی کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ وہاں پر پولیس ، عدلیہ اور دیگر سول اداروں کی فعالیت سے ان علاقوں کی سیکورٹی جڑی ہوئی تھی ۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو اس دوران جو فنڈنگ وفاقی حکومت سے ملتی رہی اس وقت کی محمود خان حکومت نے ان فنڈز کو بھی بندوبستی علاقوں خصوصاً سوات میں خرچ کرنے کی پالیسی اختیار کی اس پر ستم یہ کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کو قبائلی اضلاع میں قایم کرنے یا اس کو فعال کرنے پر بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ مقامی خاصہ دار فورس کے تقریباً 20 ہزار اہلکاروں کو پولیس کا سٹیٹس دیا گیا مگر ان کی ٹریننگ اور سہولیات کی فراہمی سے خود کو صوبائی حکومت نے لاتعلق رکھا جس کے باعث متعدد بار قبائلی علاقوں کے عوام احتجاج کرتے دکھائی دیے ۔

صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد جب خیبرپختونخوا میں کافی لمبے عرصے کے لیے ایک اعظم خان کی سربراہی میں نگران صوبائی حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت نے محدود اختیارات کے باوجود عسکری قیادت کی معاونت اور دلچسپی سے ان قبائلی اضلاع کے مسائل کے حل پر کافی توجہ مرکوز کردی جس کے باعث محرومیوں اور شکایات میں کمی واقع ہوئی اور یہ سلسلہ 2024 کے نئی وفاقی حکومت کے قیام کے بعد اس کے باوجود بڑھتا گیا کہ خیبرپختونخوا میں پھر سے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ نگران دور میں دوسرے اقدامات کے علاوہ اضلاع کی۔ تعداد سات سے بڑھاکر 9 کردی گئی اور متعدد تعلیمی اور ترقیاتی منصوبوں کا الیونتھ کور کے تعاون سے آغاز بھی کردیا گیا ۔

اس بیچ میں جب میاں شہباز شریف عدم اعتماد کی پراسیس کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے تو انہوں نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ وزیرستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے نہ صرف فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانے کا اعلان کیا بلکہ متعدد ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات بھی کیے تاہم اس کے بعد 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں جب صوبہ خیبر پختونخوا میں تیسری بار پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت قائم ہوئی تو پرانی والی پالیسی اختیار کی گئی اور اس وقت بھی قبائلی علاقوں کے معاشی اور انتظامی معاملات کو درست کرنے کی کوئی عملی کوشش دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔

وفاقی حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو صرف سیکورٹی کی مد میں 500 ارب روپے سے زائد کی فنڈنگ کی گئی مگر پی ٹی آئی کی دونوں صوبائی حکومتوں نے درکار اقدامات کے لیے اتنی بڑی رقم سے عملاً کچھ بھی قبائلی اضلاع پر خرچ نہیں کیا بلکہ الٹا الزام لگایا جاتا رہا کہ وفاقی حکومت صوبے کے پیسے نہیں دے رہی ۔ حالانکہ صوبے کو قسطوں کی صورت میں باقاعدگی کے ساتھ اربوں روپے ملتے رہے ہیں اور فنڈز نہ دینے کے الزام کو محض پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا حربہ قرار دیا جاتا رہا ۔

قبائلی علاقوں میں صوبائی حکومت کے برعکس پاک فوج نے زیادہ ترقیاتی کام کئے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ پاک فوج نے نہ صرف متعدد اہم پراجیکٹس شروع کئے بلکہ تعلیم ، روزگار ، مواصلات ، صحت اور دیگر سماجی ، معاشی شعبوں میں کی ترقی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ۔

فوج نے جہاں ایک طرف پولیس اور دیگر سول اداروں کی ٹریننگ وغیرہ پر توجہ مرکوز کی وہاں عوام کی بہتری پر بھی خصوصی توجہ دی کیونکہ اعلیٰ عسکری قیادت کو بخوبی ادراک تھا کہ سیکورٹی چیلنجز سے مستقل بنیادوں پر نمٹنے کے لیے بھی لازمی ہے کہ ادارہ جاتی استحکام اور معاشی ترقی کے اقدامات بہت ضروری ہیں ۔

سال 2021 کے دوران جب افغانستان میں طالبان نے ایک بار پھر ٹیک اور کیا تو پاکستان کی توقعات کے برعکس افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی سمیت متعدد دیگر کالعدم گروپوں کی سرپرستی شروع کردی جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا خصوصاً اس کے قبائلی علاقے ایک بار پھر بدامنی کی لپیٹ میں چلے گئے اور ریاستی اداروں کی زیادہ توجہ تاحال ( مارچ 2025 ) سیکورٹی صورتحال بہتر بنانے پر مرکوز رہی تاہم اس دوران بھی فوج اور بعض متعلقہ وفاقی اداروں کی یہ کوشش جاری رہی کہ سیکورٹی صورتحال کے علاوہ معاشی اور انتظامی امور پر بھی توجہ دیتے ہوئے اقدامات کیے جائیں ۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ذاتی دلچسپی اور ان قبائلی علاقوں کے مسلسل دوروں نے بھی بہت مثبت نتائج دیئے کیونکہ وہ نہ صرف دہشتگردی کے خاتمے پر یکسو ہوکر آگے بڑھتے رہے بلکہ وہ متعلقہ اداروں اور حکام کو ان شورش زدہ قبائلی اضلاع کی تعمیر وترقی سے متعلق ہدایات بھی دیتے رہے تاہم صوبائی حکومت کی دلچسپی اور انویسٹمنٹ عملاً نہ ہونے کی برابر رہی جس کے باعث نہ صرف یہ مشکلات بڑھتی گئیں بلکہ عوام میں مایوسی بھی پھیلتی دکھائی دی ۔

(مئی 27، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts