GHAG

Youm-e-Takbir

یوم تکبیر ، پاکستانی وفد کے اہم ممالک کے دورے اور ری انگیجمنٹ کی کوششیں

آج پورے ملک میں یوم تکبیر منانے کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا اور اسی مناسبت سے سرکاری تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔ آج سے 27 سال قبل یعنی سال 1998 کو پاکستان نے ملک کے روایتی حریف بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب اور ردعمل میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں 5 ایٹمی دھماکے کرکے اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک کا اعزاز حاصل ہے اور اسی غیر معمولی واقعے یا فیصلے کی یاد میں ہر برس سرکاری ، سیاسی اور عوامی سطح پر یوم تکبیر منائی جاتی ہے ۔

سیاسی قائدین ، وزیراعظم ، صدر مملکت اور پاکستانی ملٹری کے سروسز چیفس نے اس موقع کی مناسبت سے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ پاکستان کی دفاعی تاریخ میں 28 میء کے دن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس روز ملک کی سلامتی اور سیکورٹی کو ناقابل تسخیر بنایا گیا ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو یقینی بنایا اور یہ کہ پاکستان کی ایٹمی قوت ملک کے دفاع اور وقار کی علامت ہے جو کہ مسلح افواج کے پاس قوم کی امانت ہے اور مسلح افواج پاکستان کی سیکیورٹی کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے ۔

جس وقت یہ بیان جاری کیا جارہا تھا اس سے چند گھنٹے قبل وزیراعظم شہباز شریف ، کابینہ کے ارکان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر آذر بائیجان کے دورے پر تھے ۔ اس سے قبل ان اعلیٰ ریاستی حکام نے ایران اور ترکی کے کامیاب دورے کئے جہاں ان ممالک کے سربراہان مملکت کے علاوہ وزرائے دفاع اور عسکری اہمیت کے ساتھ ملاقاتیں کیں گئیں اور خطے کے امن اور معاشی استحکام بارے تفصیلی مذاکرات کیے گئے ۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ایرانی ہم منصب سے خصوصی ملاقات کرتے ہوئے دونوں ممالک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجر پر تبادلہ خیال کیا اور ایرانی میڈیا نے اس ملاقات کو بڑی اہمیت دیکر کہا کہ پاکستان اور ایران کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملات پر اہم پیش رفت کرنے والے ہیں ۔ ایرانی میڈیا کے بقول پاکستان نے ایران سے ان گروپوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ ایران کے بعض سرحدی صوبوں سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کارروائیاں کرتے آرہے ہیں ۔ اسی طرح ایران نے بھی اس ضرورت پر زور دیا کہ پاکستان کی سرزمین بھی ایسے ہی بعض گروپوں کے خلاف استعمال نہ ہو ۔ رپورٹس کے مطابق اس ایشو پر دونوں ممالک کے آرمی سربراہان نے بعض ضروری نکات پر اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے ۔

اس سے قبل پاکستان کے اس اعلیٰ سطحی وفد کا ترکی میں شاندار استقبال کیا گیا اور پاک بھارت جنگ کے دوران ترکی کے کردار کو پاکستان نے خراسان تحسین پیش کی ۔ آذر بائیجان میں بھی خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور بھارتی پالیسیوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں خطے کے بعض اہم ممالک ایک ریجنل بلاک قائم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں اور ان کوششوں میں چین رابطہ کاری کا کام کرتا آرہا ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کی کشیدگی کم کرنے میں بھی چین غیر معمولی کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے اور بیجنگ کے حالیہ سہ فریقی مذاکراتی عمل کے بعد نہ صرف یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد سازی اور رابطہ کاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس طرح کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان نے چند روز قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے درجنوں اہلکاروں اور جنگجووں کو گرفتار کرلیا ہے اور ان افراد کی فہرست پاکستان نے افغان حکومت کو فراہم کی تھی ۔

اس تمام پیشرفت کو ماہرین مستقبل کی ری انگیجمنٹ کے تناظر میں بہت اہم قرار دیتے ہوئے اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے کے معاملات میں مرکزی اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ پاکستان نے بھارت کی طاقت کو اسی مہینے جس منظم انداز میں چیلنج کیا اس نے خطے میں طاقت کے توازن کو ایک نیا رخ دیا ہے ۔ بھارت فرسٹریشن کا شکار ہوگیا ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پاکستان کو کھلے عام دھمکی دی ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بیان کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے پاکستان کے خلاف اگر پھر سے کوئی جارحیت کی کوشش کی گئی تو پہلے سے زیادہ سخت جواب دیا جائے گا ۔ دوسری طرف کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے ایک بار پھر مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہوگئی ہے اور بھارت تنہائی کا شکار ہوگیا ہے جس کی ذمہ داری ان کے بقول نریندر مودی پر عاید ہوتی ہے ۔ اس فرسٹریشن میں بھارت کی جانب سے کسی بھی غیر متوقع اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے تاہم پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو صورتحال کا ادراک ہے اور اس بات کا احساس بھی کہ پاکستان کے عوام کی توقعات کس نوعیت کی ہیں ۔ بھارت کی حالیہ جارحیت اور جنگی جنون سے یہ بات درست ثابت ہوگئی ہے کہ 1998 کا ایٹمی دھماکوں کا پاکستان کا فیصلہ بکل درست تھا اور اگر پاکستان نے ایٹمی صلاحیت سمیت خود کو سیکورٹی کے دیگر اقدامات کے لیے تیار نہیں کیا ہوتا تو آج ملک کو شدید نوعیت کی مشکلات درپیش ہوتیں ۔ 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے دوران پاکستان کو سخت عالمی ردعمل اور امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا اور عوام نے بھی اپنی قیادت کا ساتھ دیکر حالات اور مشکلات کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایک طرف آج کی دن کی مناسبت سے اگر ہمیں ایک طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو اور اس پروگرام کے تمام کرداروں کو خراج تحسین پیش کرنے چاہیے تو دوسری جانب ہماری حفاظت کے ضامن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ ملک کے کروڑوں عوام کو بھی دینا چاہیے ۔

(مئی 28، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts