خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری رہنے والی دہشت گردی میں یکدم اضافہ ہوگیا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ پاکستان پر اندرونی دباؤ ڈالنے اور خطے کی ری انگیجمنٹ کی کوششوں کو متاثر کرنے کی ایک باقاعدہ کوشش کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے ۔ گزشتہ دنوں جہاں ایک طرف خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دو طرفہ کارروائیاں کی گئیں وہاں بلوچستان کے علاقوں کیچ اور لورالائی میں بھی فورسز نے دو آپریشن کیے ۔ جمعہ کے روز بلوچستان کے علاقے سوراب میں مسلح دہشت گردوں کے ایک گروپ نے ایک پولیس اسٹیشن کو جلاتے ہوئے متعدد سرکاری افسران کے گھروں پر ہلہ بول دیا جس کے نتیجے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت بلیدی کو شہید کردیا گیا اور متعدد زخمی کردیے گئے ۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کویٹہ کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے سٹاف کالج کویٹہ کا دورہ کرتے ہوئے شرکاء سے خطاب کرنا تھا ۔ حملے کی ٹایمنگ دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حملہ اور یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ کسی بھی وقت بلوچستان میں ریاستی رٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں ۔ اسی تناظر میں سٹاف کالج کے اپنے خطاب میں آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی اور بیرونی جارحیت کے ذریعے نہ تو پاکستان کو کمزور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے دباؤ میں لایا جاسکتا ہے ۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے عزائم اور کوششوں کو پورے قومی عزم کے ساتھ کچلا جائے گا ۔
دوسری جانب پاکستان نے افغانستان میں اپنے مستقل سفیر کی تعیناتی کا اعلان کردیا ہے جو کہ عید کے بعد چارچ لینے کابل پہنچے گا ۔ نمایندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کے مطابق اس اقدام سے دونوں پڑوسی ممالک کے سفارتی تعلقات میں بہتری واقع ہوگی جبکہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے دورہ کابل کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اور دونوں ممالک کی تلخیوں میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے گزشتہ روز ایک بیان میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے تناظر میں مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت کو صوبے کے مخصوص حالات کے تناظر میں افغانستان کی عبوری حکومت سے مذاکرات کی اجازت دی جائے ۔ ان کے مطابق افغانستان کے حالات اور جاری کشیدگی سے صوبہ خیبر پختونخوا براہ راست متاثر ہوتا آرہا ہے اس لیے افغان پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو براہ راست مذاکرات یا رابطہ کاری کی اجازت اور سہولت دی جائے ۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو نہ صرف ملک کی خارجہ پالیسی پر ایک پیج پر آکر نئے حالات کے چیلنجز کے پس منظر میں نئی صف بندی کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا بھی لازمی ہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت ، وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ دہشت گردی کے سنگین مسائل کے حل کے کسی واضح روڈ میپ پر مشاورت کرکے آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کریں کیونکہ جاری کشیدگی اور دہشت گردی سے صوبے کے معاملات اور عوام کی معمولات زندگی کو نارمل بنانا وقت کی ضرورت ہے ۔ عوام کے علاوہ فورسز بھی لمبی جنگ لڑتے لڑتے تھک گئی ہیں اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں فرسٹریشن کی صورتحال ہے ۔ ایسے میں لازمی ہے کہ نئی صف بندی کی جائے اور خارجہ پالیسی کے فیصلوں کے دوران صوبائی حکومتوں اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔
(مئی 31، 2025)