GHAG

تحریک انصاف کا زوال: خیبر پختونخوا کے عوام کہاں کھڑے ہیں؟

تحریک انصاف کا زوال: خیبر پختونخوا کے عوام کہاں کھڑے ہیں؟

اے وسیم خٹک

خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی اب نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب تحریک انصاف کو تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہی جماعت ناقص کارکردگی، بدعنوانی، اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی کی زندہ مثال بن چکی ہے۔ صرف اپوزیشن ہی نہیں، بلکہ اب تو خود تحریک انصاف کے کارکنان، ارکانِ اسمبلی اور رہنما بھی پارٹی کے اندرونی حالات پر آواز بلند کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے حالیہ بیان میں خیبر پختونخوا کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: “جنہیں جیلوں میں ہونا چاہیے تھا، وہ حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ چند افراد صرف وزارتوں کے مزے لینے کے لیے حکومت کا حصہ بنے ہیں، اور یہ سب کچھ عمران خان کے نام پر ہو رہا ہے، جب کہ ان کی رہائی کسی کی ترجیح نہیں۔ ان کے بقول، اب پارٹی میں دلچسپی عمران خان کی رہائی سے زیادہ اس بات میں ہے کہ ان کے نام پر زیادہ فائدہ کون حاصل کرے گا۔

پارٹی میں اختلافات کا یہ عالم ہے کہ پی ٹی آئی اب درجنوں گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ شکیل خان، شیر افضل مروت اور دیگر کئی رہنما بار بار یہ نشاندہی کر چکے ہیں کہ پارٹی نظریے سے ہٹ چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں 2013 کے بعد پرویز خٹک اور 2018 کے بعد محمود خان جیسے رہنماؤں کو عمران خان کے “ہیرے” کہا گیا، مگر اب یہی افراد سرِ عام کرپشن اور ناقص کارکردگی پر تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔

بی آر ٹی منصوبہ، جو کہ ایک وقت میں عوامی سہولت کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اب مالی اور فنی ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔ سینئر صحافی عرفان خان نے انکشاف کیا کہ “ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ بسیں ہائبرڈ یعنی ماحول دوست ہوں گی، لیکن حقیقت میں یہ تمام بسیں ڈیزل پر چل رہی ہیں۔ صرف ایک دن کے ڈیزل کا خرچ 20 لاکھ روپے ہے۔” ان کے مطابق منصوبے کے لیے 100 ارب روپے کا قرض لیا گیا جس پر 10 ارب روپے سود دیا جا رہا ہے، جبکہ سالانہ 5 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ان تمام اخراجات کے باوجود یہ منصوبہ تاحال نامکمل ہے۔ فنی خرابیاں، سروس میں تعطل اور عوام کی پریشانی اس منصوبے کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔

گندم اسکینڈل کے علاوہ کوہستان کا ایک اور بڑا کرپشن سکینڈل سامنے آیا ہے، جس کا ذکر صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق کوہستان میں چالیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے، جس میں سے اب تک چھبیس ارب روپے ریکور کر لیے گئے ہیں۔ یہ رقم ایک سنگین مالی بدعنوانی کی عکاسی کرتی ہے جس سے نہ صرف صوبے کے مالی وسائل کو نقصان پہنچا ہے بلکہ عوام کے بنیادی حقوق اور ترقیاتی کام بھی متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سکینڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ خیبر پختونخوا میں کرپشن کا دائرہ صرف چند منصوبوں تک محدود نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔

گندم اسکینڈل بھی خیبر پختونخوا کی حکومت کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر تعلیم مینا خان اور ان کے فرنٹ مین جلال خان نے گندم کی خریداری میں شدید مالی بدعنوانی کی۔ جلال خان نے پنجاب سے 2800 روپے فی من کے حساب سے گندم خریدی، لیکن جب ٹرانسپورٹ کے بڑھتے اخراجات سے زمیندار تنگ آ گئے تو انہوں نے وہی گندم 2400 روپے فی من میں بیچ دی۔ بعد ازاں، یہی گندم محکمہ خوراک نے 3900 روپے فی من کے حساب سے خریدی۔ اس سودے میں مبینہ طور پر 38 کروڑ روپے کی ناجائز کمائی ہوئی۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ گندم عوام تک پہنچنے کے بجائے گوداموں سے غائب ہو گئی۔ صرف نوشہرہ کے گودام سے 15,000 ٹن گندم غائب ہے، جس کی مالیت تقریباً 1 ارب 46 کروڑ روپے ہے۔

صحت کارڈ پروگرام جو عوام کے لیے فلاحی سہولت تھا، وہ بھی مالی بحران کی نذر ہو چکا ہے۔ متعدد اسپتالوں نے عدم ادائیگی کے باعث علاج سے انکار کر دیا ہے، جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور قیادت کی غیر موجودگی نے تنظیمی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔

مرحوم بیوروکریٹ گلزار خان کی بیٹی کی جانب سے انصاف کے لیے دہائی دینا اس نظام کی اصل تصویر ہے، جہاں نہ عوام کو انصاف ملتا ہے، نہ کسی افسر کے خاندان کو۔

اب تحریک انصاف کی اندرونی کمزوریوں کی گواہی خود پارٹی رہنما بھی دینے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما شاہد خٹک کا ایک اہم بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا: “بیرسٹر سیف ہماری پارٹی کا نہیں، وہ وفاق کا ہے۔” یہ بیان اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پارٹی میں انتشار اور اندرونی خلفشار اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس بیان سے امیر حیدر خان ہوتی کی بات بھی درست ثابت ہوتی نظر آتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: “تحریک انصاف اندرونی طور پر سات آٹھ پارٹیوں میں بٹ چکی ہے۔”

ان تمام معاملات نے خیبر پختونخوا کے عوام کے دلوں میں شدید مایوسی پیدا کر دی ہے۔ تبدیلی کا خواب جو کسی وقت ہر زبان پر تھا، اب ایک سراب بن چکا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے اب بھی احتساب، شفافیت اور تنظیمی اصلاحات پر توجہ نہ دی، تو شاید آنے والے دنوں میں یہ جماعت صرف کتابوں میں رہ جائے گی، عوام کے دلوں سے مٹ جائے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

فائنل راؤنڈ کی تیاری؟

پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے گزشتہ دو تین دنوں کے دوران خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے کالعدم گروپوں کے

Read More »