فہمیدہ یوسفی
بلوچستان ، وہ سرزمین جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہےلیکن سیاسی شعور اور قیادت کے فقدان نے اسے مسلسل زخم دیے ہیں۔ آج اگر ہم بلوچستان کی موجودہ صورتحال پرنگاہ ڈالیں، تو ایک سادہ سی حقیقت چیخ چیخ کر ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ وہ طبقہ جس نے اس دھرتی کا ذمہ لینا تھا، آج بھی مکمل طور پر غیرفعال ہے اور یہ طبقہ ہے سیاسی قیادت — وہی سیاسی کلاس جو کبھی عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی تھی، آج اپنی ذمہ داریاں فراموش کرچکی ہے۔
قوم پرست سیاست نے پچھلی کئی دہائیوں میں بلوچستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ ان کے نعروں میں درد تو تھا، مگر عملی طور پر ان کا قبلہ و کعبہ بھی وہی رہا جو وہ عوام کے سامنے رد کرتے رہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مقابل وہ سیاست دان، جو بظاہر وفاق پرست تھے، وہ بھی اسی دوہری سیاست کے رنگ میں رنگے گئے۔ ریاست کو برا کہہ کر بھی فائدے سمیٹے، اور اقتدار کے دستر خوان پر بیٹھ کر بھی خود کو محروم ظاہر کیا۔ نتیجہ؟ آج بلوچستان کا نوجوان ان سب سے بیزار ہوچکا ہے۔ وہ نہ قوم پرستوں پر اعتماد کرتا ہے، نہ ان وفاق پرستوں پر جنہوں نے صرف وفاداریاں تبدیل کر کے پارٹیاں بدلیں اور اقتدار کی راہداریوں میں گم ہو گئے۔ عوام کے دکھوں پر کسی کو نہ درد ہے نہ ضمیر کی خلش۔
ہمارے ہاں بڑی سیاسی جماعتیں اب سیاسی نظریات یا وژن کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں، بلکہ وہ “الیکٹیبلز” ڈھونڈتی ہیں۔ اور یہ الیکٹیبلز ہر الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتیں ایسے بدلتے ہیں جیسے رُخ ہوا کا بدلتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی ان کا نصب العین بن چکی ہے، ریاست اور عوام نہیں۔ اقتدار کی اس دوڑ میں نظریہ کہیں کھو چکا ہے، منزل کا پتہ نہیں، اور رہنما بے سمت ہیں۔
ایسی فضا میں ریاست کا عوام سے رابطہ، جو صرف سیاسی قیادت کے ذریعے ممکن ہوتا ہے، تقریباً ٹوٹ چکا ہے۔ ہمارے ہاں قومی سطح پر وہ سیاسی بصیرت موجود ہی نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور زخمی خطے کو سمجھ سکے۔ مقتدر قوتیں صرف امن کی سخت پالیسی پر زور دیتی ہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں صرف کرسی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ریاست اور عوام ہی نہ ہوں، تو سیاسی جماعتیں کس کی نمائندہ رہ جائیں گی؟ اور وزیر اعلیٰ کی کرسی کس کام کی ہوگی جب زمین بنجر ہو، اور دل خالی؟ اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ریاست بچے، عوام کا اعتماد بحال ہو، اور بلوچستان پھر سے ایک فعال اکائی بنے — تو سیاسی جماعتوں کو اپنے اصل کردار میں واپس آنا ہوگا۔ محض اقتدار نہیں، بلکہ خدمت کا جذبہ لے کر۔ اور مقتدرہ کو بھی اب پالیسی کی کنفیوژن سے باہر نکل کر ایک واضح، ہارڈ اسٹیٹ پالیسی اپنانا ہوگی — لیکن صرف سختی نہیں، بلکہ شفافیت اور ذمہ داری کے ساتھ۔
بلوچستان کوئی “پراجیکٹ” نہیں ہے، یہ ایک جیتی جاگتی قوم ہے، جسے سمجھنے اور سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وقت گزرنے کے بعد صرف پچھتاوے ہی رہ جائیں گے — اور پھر شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے۔