GHAG

کالعدم ٹی ٹی پی میں اختلافات کی اطلاعات کیوں زیر گردش ؟

کالعدم ٹی ٹی پی میں اختلافات کی اطلاعات کیوں زیر گردش ؟

پاکستان میں ریاست مخالف جنگ لڑنے والی سب سے طاقتور اور منظم تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروپوں اور عہدے داروں کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات کی اطلاعات زیر گردش ہیں جبکہ اس کے سربراہ نور ولی محسود کے بارے میں بھی گزشتہ دو تین سے اس قسم کی غیر مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ افغانستان کے سرحدی علاقے خوست میں ایک مبینہ حملے کا نشانہ بنے ہیں اور زخمی ہوگئے ہیں ۔ سال 2008 کو وزیرستان میں قائم ہونے والی ٹی ٹی پی کے اکثر سربراہان کا تعلق وزیرستان ہی سے رہا ہے ۔ سوات سے تعلق رکھنے والے مولوی فضل اللّٰہ کے بغیر باقی تمام سربراہان کا تعلق قبائلی علاقوں خصوصاً وزیرستان سے رہا اور اسی تناظر میں موجودہ سربراہ نور ولی محسود سمیت اکثر کمانڈرز اس گوریلا جہادی گروپ یا تنظیم کو ایک محسود مزاحمتی گروپ کا نام دیتے آئے ہیں ۔

اس قبائلی شناخت کا معاملہ اتنا اہم رہا ہے کہ ایک وقت میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کمانڈرز نے مہمند سے تعلق رکھنے والے مشہور زمانہ کمانڈر عمر خالد خراسانی کو بھی مرکزی امیر بننے نہیں دیا جبکہ سوات کے مولوی فضل اللّٰہ کی بھی شدید مخالفت کی گئی تھی ۔ عمر خالد خراسانی نے اسی پس منظر میں بعد میں ( غالباً 2012 ) میں جماعت الاحرار کے نام سے الگ گرپ بنایا اور یہ گروپ ایک بار پھر گزشتہ چند برسوں سے پھر سے متحرک اور منظم ہونے لگا ہے حالانکہ کچھ عرصہ قبل نور ولی محسود کی کوشش اور خواہش کے باعث بعض تحفظات کے باوجود یہ گروپ مرکزی ٹی ٹی پی کے ساتھ انضمام کرچکا تھا ۔ مگر گزشتہ کئی مہینوں سے لگ یہ رہا ہے کہ جماعت الاحرار پھر سے ” بغاوت ” کی راہ پر ہے ۔ چند اور گروپوں کے بارے میں بھی اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ وہ بھی نور ولی محسود کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرنے لگے ہیں ۔ گزشتہ روز کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللّٰہ احسان نے نام مینشن کئے بغیر اپنے ریمارکس میں نور ولی محسود کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ وہ نظریات کی بجائے ذاتی پبلسٹی کی مہم چلوانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جبکہ ان سے قبل جماعت الاحرار کے ایک اور لیڈر سربکف مہمند کا ایک وائس میسج وایرل ہوگیا تھا جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس قیادت نے جاری مزاحمت یا جہاد کو محض خیبرپختونخوا تک محدود رکھا ہوا ہے اور یہ کہ اس قیادت میں صلاحیتوں اور فیصلہ سازی کا فقدان ہے ۔

ان اختلافی معاملات نے اتنی شدت اختیار کی تھی کہ بعض افغان طالبان رہنماؤں نے مداخلت کرتے ہوئے ان کو بیانات جاری کرنے سے منع کیا مگر یہ سلسلہ اب پھر سے چل نکلا ہے ۔ دوسری جانب حافظ گل بہادر گروپ اور کالعدم لشکر اسلام کے بارے میں بھی اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ وہ بھی بغاوت کی راہ پر گامزن ہیں ۔ بعض اطلاعات کے مطابق امارات اسلامیہ افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان بھی بعض نظریاتی اور تنظیمی معاملات پر اختلافات کی خبریں زیر گردش ہیں اور بعض رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے معاملے پر فریقین کے درمیان گزشتہ تین چار مہینوں سے کشیدگی چلی آرہی ہے ۔

بعض متعلقہ حلقے صوبہ خوست ( افغانستان) میں نور ولی محسود پر ہونے والے مبینہ حملے کی غیر مصدقہ اطلاعات کو انہی اختلافات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ رپورٹس کے مطابق ان کے قافلے کو دورہ خوست کے دوران گزشتہ روز ایک موٹر سائیکل سوار کے ذریعے دستی بم کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ زخمی ہوئے ہیں تاہم کالعدم ٹی ٹی پی اس واقعے کی تردید کرتی آرہی ہے ۔ اس سے قبل افغانستان کے مختتلف علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بعض دیگر گروپوں کے ایک درجن سے زائد کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں عمر خالد خراسانی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں جماعت الاحرار کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں نور ولی محسود کی ہدایت پر ٹی ٹی پی ہی نے افغانستان میں نشانہ بنایا تھا کیونکہ وہ اپنے سخت گیر اور واضح موقف کے باعث نور ولی محسود کے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے ۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت کو پاکستان کے متعدد پرو جہادی اور پرو طالبان علماء کی شدید مخالفت کا بھی سامنا ہے اور ان علماء میں متعدد وہ بھی شامل ہیں جو کہ پاکستان کے اندر مختلف مذہبی گروپوں کی سربراہی کررہے ہیں اور افغانستان کے جہاد میں ان کا اہم کردار رہا ہے ۔ دوسری جانب پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں بھی کالعدم ٹی ٹی پی کو نہ صرف نشانہ بناتی آرہی ہیں بلکہ بعض حلقوں کے مطابق جاری اختلافات کو ہوا دینے اور افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت سے دور کرنے میں بھی پاکستانی اداروں کا اہم کردار ہے ۔

اگر چہ پاکستان کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے اور اس گروپ کو کمزور نہیں سمجھا جاسکتا اس کے باوجود اندرونی معاملات اور اختلافات نے کافی پیچیدہ صورتحال پیدا کردی ہے اور جاری حالات کے تناظر میں بہت سے نئے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ۔
(1 جون 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts