پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی دو تفصیلی ٹویٹس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے متعلق بعض ایسی باتیں کی ہیں جو کہ ان کے سابق ان دی ریکارڈ بیانات اور موقف سے بلکل الگ بلکہ متضاد ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ان کے وزارت عظمیٰ کے دوران ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ذریعے ایک ادارہ جاتی مسئلے پر ان سے رابطے کاری کی کوشش کی مگر بشریٰ بی بی نے خود ” غیر سیاسی” قرار دیتے ہوئے بات کرنے سے گریز کیا ۔ عمران خان کے بقول اسی ” اصولی موقف” کے باعث بشریٰ بی بی سمیت پوری پارٹی کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
یہ بات بہت عجیب ہے کہ ان دو حالیہ ٹویٹس سے چند روز قبل اسی عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے اور بات کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔ اسی دوران ان کی بہن علیمہ خان نے بھی اسی نوعیت کا ایک ” مؤدبانہ” بیان دیا تھا تاہم جب ان کی غیر حقیقت پسندانہ بیانات اور توقعات کے برعکس سپریم کورٹ کی ایک سماعت کے نتیجے میں کوئی ” رعایت” نہیں ملی تو فرسٹریشن میں سابق وزیراعظم نے نہ صرف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا اور اپنے لیڈروں کو ناکارہ قرار دیکر کھلے عام دھمکیاں دیں بلکہ پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پر ماضی کے بعد واقعات کے تناظر میں براہ راست الزامات بھی لگائے ۔ اس سے قبل وہ اور ان کے لیڈر دو تین برسوں سے یہ بیانیہ تشکیل دیتے رہے کہ بحیثیت وزیر اعظم انہوں نے جنرل سید عاصم منیر کو ایک پریمئر انٹلیجنس ادارے کی سربراہی سے اس لیے الگ کیا تھا کہ انہوں نے براہ راست عمران خان سے ان کی اہلیہ کی حکومتی امور میں مداخلت اور مبینہ کرپشن کی شکایت کی تھی ۔
میڈیا رپورٹس میں بھی یہی بیانیہ برسوں سے سامنے آتا رہا ہے تاہم اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ موصوفہ نے اتنی طاقتور عسکری شخصیت سے بات کرنے سے بھی ” معذرت ” کی تھی ۔ وغیرہ وغیرہ فرسٹریشن میں ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں فیلڈ مارشل چھائے ہوئے ہیں اس قسم کے سطحی بیانات دینے کے دو مقاصد نظر آتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ بلیک میلنگ کا ایک اور کارڈ استعمال کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کی ساکھ اور شہرت کو متنازعہ بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ ایسا کہنے سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرتے ہوئے کسی مجوزہ ڈیلنگ کا راستہ ہموار کیا جاسکے ۔ فی الحال تو یہ دونوں مقاصد پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ 10 مئی کے بعد پاکستان کی ریاست اور حکومت لوگوں کی توقعات اور اندازوں سے بھی طاقتور ہوگئی ہیں اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی میں بھی پہلے والا دم خم باقی نہیں رہا ہے اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم نے یہ سب کہہ کر خود پر ریاست کے دروازے مزید بند کردیے ہیں اور رہی سہی کسر ان کے وہ ” کی بورڈ واریئرز ” پوری کررہے ہیں جنہوں نے بقول پی ٹی آئی کے اہم لیڈروں کے باہر بیٹھ کر پوری پارٹی کو یرغمال بنادیا ہے ۔
(جون 2، 2025)