GHAG

پشاور یونیورسٹی: زوال کی داستان، نظام کی ناکامی

پشاور یونیورسٹی: زوال کی داستان، نظام کی ناکامی

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

کبھی پشاور یونیورسٹی خیبر پختونخوا کی علمی عظمت، تہذیبی وقار اور فکری بلندی کی علامت ہوا کرتی تھی۔ اسلامیہ کالج پشاور کی درخشاں روایت پر قائم اس ادارے نے نہ صرف صوبے بلکہ ملک بھر کو عظیم مدبر، سائنسدان، محقق، ماہرینِ تعلیم، وکلاء، جج، بیوروکریٹس، شعراء اور ادیب فراہم کیے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی خواہش پر قائم ہونے والا یہ ادارہ کئی دہائیوں تک اس خطے کا روشن چراغ رہا، جو اندھیروں میں بھی علم کی روشنی بکھیرتا رہا۔

لیکن آج، 2025 میں، یہی ادارہ حکومتی بے حسی کے باعث شدید زوال، بدانتظامی، مالی بحران اور سیاسی مداخلت کا شکار ہو چکا ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت، دونوں ہی اس ادارے کو بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ تعلیم کے مقدس میدان میں بدنظمی اور سیاسی قبضہ گیری نے اس علمی قلعے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی اس وقت شدید ترین مالی بحران سے دوچار ہے۔ سب سے تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اساتذہ اور ملازمین، جنہوں نے اپنی زندگیاں اس ادارے کی خدمت میں گزار دیں، آج بڑھاپے میں پنشن سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ حکومتِ خیبر پختونخوا نے 30 مئی تک تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن جاری کرنے کا حکم دیا، مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بار پھر گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے پنشنرز کو ان کا جائز حق دینے سے انکار کر دیا۔ یہ رویہ محض وقتی لاپروائی نہیں بلکہ اب ایک مستقل معمول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پنشن کی ایک ماہ یا اس سے زائد تاخیر اب ایک عمومی روایت بن چکی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے بیشتر ریٹائرڈ اساتذہ دنیا کی ممتاز درسگاہوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے پاس بیرونِ ملک منتقل ہونے، وہاں سیٹل ہونے اور دولت کمانے کے بے شمار مواقع موجود تھے، لیکن انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے آرام و آسائش کے بجائے اپنے ملک میں رہ کر یہاں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی اور اپنی پوری زندگی اسی مقصد کے لیے وقف کر دی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج وہ پنشن جیسے اپنے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں اور اس کے حصول کے لیے اپیلیں اور درخواستیں کرنے پر مجبور ہیں، جو ایک نہایت شرمناک صورتحال ہے۔ یہ معزز اساتذہ اور دیگر ملازمین، جو عمر رسیدہ ہو چکے ہیں، مختلف طبی مسائل میں مبتلا ہیں۔ ساری زندگی ایمانداری اور ایک نیک مقصد کے لیے گزارنے والے معاشرے کے یہ قیمتی اثاثے اب مالی اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ ان کے لیے پنشن محض ایک مالی سہارا نہیں بلکہ زندگی کا واحد وسیلہ ہے، جس کے بغیر وہ روزمرہ کی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ بھی شدید مالی تنگی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، جو کہ اربابِ اختیار کی سنگ دلی اور بے حسی کی انتہا ہے۔

مگر یہ بدحالی صرف پنشنرز تک محدود نہیں رہی۔ موجودہ حاضر سروس اساتذہ اور عملہ بھی تنخواہوں کی تاخیر یا قسطوں میں ادائیگی جیسی اذیت ناک صورتحال سے گزر رہے ہیں، جس کا براہِ راست اثر تعلیمی ماحول پر پڑ رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جامعہ کا تدریسی نظام اور تحقیقی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

یونیورسٹی کی خودمختاری، جو کبھی اس کی پہچان ہوا کرتی تھی، اب محض ایک داستان بن چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب وائس چانسلر کا تقرر، بجٹ کی منظوری، اور پالیسی سازی جیسے فیصلے علمی مجالس اور ماہرین کی مشاورت سے ہوا کرتے تھے، مگر اب ان تمام امور کو قانون سازی کے ذریعے براہِ راست وزیراعلیٰ اور وزراء کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام تعلیمی اداروں کی آزادی، میرٹ، شفافیت اور قابلیت کے اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ ماضی میں اہلِ دانش نے بڑی سوچ بچار کے بعد یونیورسٹیوں کو وزیر اعلیٰ، صوبائی وزیروں اور مشیروں کی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں خودمختار حیثیت دی تھی اور صوبے کے گورنر کو ان کا چانسلر مقرر کیا گیا تھا، مگر موجودہ وزیر اعلیٰ، جس کا علم و دانش سے دور دور کا واسطہ نہیں، نے یونیورسٹیوں کو اپنے ماتحت کر دیا ہے اور ان کے معاملات میں براہِ راست سیاسی مداخلت کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس سے پہلے سے تباہ حال یہ درسگاہیں مزید تباہی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

سیاسی مداخلت نے پورے صوبے میں تعلیمی زوال کو جنم دیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی جیسے تاریخی ادارے کے علاوہ کئی دیگر جامعات بھی مالی مسائل، بدعنوانی اور ناقص انتظام کی وجہ سے بند ہو چکی ہیں یا بند ہونے کے قریب ہیں۔

صوبے میں موجودہ برسراقتدار سیاسی جماعت گزشتہ دس سال سے اقتدار میں ہے، جو تعلیم، صحت اور بنیادی عوامی سہولیات کے میدان میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں اور بدعنوانی کے اسکینڈلز منظرِ عام پر آ چکے ہیں، مگر ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہوئی، نہ کسی کو سزا دی گئی، نہ کسی سے بازپرس کی گئی۔ صوبے میں عملاً احتساب کا نظام ختم ہو چکا ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اپنے اندرونی مسائل کا حل تلاش کرے، وہ مسلسل وفاقی حکومت کے خلاف محاذ آرائی، احتجاج، اور سیاسی جنگ میں مصروف ہے۔ سرکاری وسائل، جو عوام کی فلاح و بہبود، تعلیمی اداروں کی بہتری، اور صحت جیسے شعبوں پر خرچ ہونے چاہئیں، وہ احتجاجی جلسوں، سیاسی مہمات، اور میڈیا پر بیانیاتی جنگوں میں ضائع کیے جا رہے ہیں۔ اس سیاسی بےحسی کی ایک زندہ مثال پشاور یونیورسٹی ہے، جو زوال کی کھائی میں گر چکی ہے، مگر حکومت کی ترجیحات میں اس کا کوئی ذکر تک نہیں۔

یہ تمام صورتحال خیبر پختونخوا جیسے پسماندہ، حساس اور کمزور تعلیمی ڈھانچے والے صوبے کے لیے ایک سنگین المیہ ہے۔ ایک ایسا صوبہ جو پہلے ہی امن و امان، بےروزگاری، غربت اور تعلیمی پسماندگی جیسے چیلنجز کا شکار ہے، وہاں تعلیم کے شعبے کو اس قدر نظرانداز کرنا ایک ناقابلِ معافی مجرمانہ غفلت ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ اس مسلسل زوال پر خاموشی توڑی جائے۔ اساتذہ، پنشنرز، طلباء، سول سوسائٹی، میڈیا، اور عدالتوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ تعلیم صرف ایک سرکاری شعبہ نہیں، یہ ایک قوم کا مستقبل ہے۔ پشاور یونیورسٹی جیسے ادارے کا زوال محض ایک ادارے کا زوال نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام کے زوال کا اشارہ ہے۔ اگر ہم نے پشاور یونیورسٹی جیسے اداروں کو بچانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ زوال مستقل تاریکی میں بدل جائے گا، اور ہماری آنے والی نسلیں علم کے بغیر، سمت کے بغیر اور امید کے بغیر رہ جائیں گی۔

حال ہی میں پشاور یونیورسٹی میں نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی کی تقرری کی گئی ہے، جن کی پہچان ایک ماہرِ تعلیم اور تجربہ کار منتظم کی ہے۔ اگر انہیں آزادی سے کام کرنے دیا گیا اور مکمل تعاون فراہم کیا گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بہتری لا سکیں گے۔

پشاور یونیورسٹی کو بچانا محض ایک تعلیمی ادارے کو بچانا نہیں، بلکہ اپنے معاشرے، اپنے نظام، اور اپنے مستقبل کی حفاظت کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts