GHAG

کی بورڈ وارئیر ہی پی ٹی آئی کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں ۔

کی بورڈ وارئیر ہی پی ٹی آئی کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔

اے وسیم خٹک

یہ بات عجیب سی لگے گی کہ پی ٹی آئی کی تباہی میں کی بورڈز وارئیرز کا بڑا ہاتھ ہے یا وہ لوگ جو خان کے سوشل میڈیا ھنڈلز کنٹرول کر ررہے ہیں اور کس کی ایما پر کر رہے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) آج ایک ایسے سیاسی بحران کا شکار ہے جو اس کے لیے واپسی کا راستہ انتہائی دشوار بنا چکا ہے۔ وہ جماعت جو کبھی نوجوانوں کی سب سے طاقتور سیاسی قوت کے طور پر جانی جاتی تھی، اب سوشل میڈیا کی غیر ذمہ دار ٹیم کی غلطیوں اور کی بورڈ واریئرز کے غلیظ رویوں کی وجہ سے مسلسل زوال کا شکار نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا واریئرز نے اختلاف رائے کو گستاخی، تنقید کو غداری، اور اصلاح کو سازش قرار دے کر پارٹی قیادت کو ایک ایسے خول میں بند کر دیا ہے جہاں حقیقت اور تنقیدی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں۔

پی ٹی آئی کے اندر جنرل عاصم منیر کے خلاف جو زبان استعمال ہو رہی ہے، وہ نہ صرف سیاسی لحاظ سے نقصان دہ ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایسی زبان کسی سیاسی جماعت کے لیے خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ یہ ریاستی اداروں سے تعلقات کو بگاڑتی ہے اور عوامی اعتماد کو ختم کرتی ہے۔ ایک ذمہ دار سیاسی جماعت کی حیثیت سے تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اختلاف کو جمہوری عمل کا حصہ سمجھے، نہ کہ دشمنی اور انتشار کا ذریعہ۔

نو مئی کےاور چھبیس نومبر کے واقعات نے پارٹی کے موقف اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھا دیے۔ ان سوالات کا شفاف جواب دینے کے بجائے پارٹی نے اپنے اہم رہنماؤں کو بلا وجہ نشانہ بنانے، ان کو ہدف تنقید بنانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، جس سے نہ صرف پارٹی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے بلکہ اندرونی خلفشار بھی بڑھا ہے۔ بشریٰ بی بی، علیمہ خان جیسے نامور رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنا کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ایک غلط حکمت عملی ہے جو پارٹی کی خودساختہ تباہی کا پیش خیمہ ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے بیانیے کو واضح نہیں کیا کہ وہ کہاں جانا چاہتی ہے۔ کیا عمران خان اور ان کی ٹیم مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں یا تصادم کی؟ کیا وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں یا محض اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں؟ یہ الجھن پارٹی کے اندر موجود ہے اور اب یہ الجھن عوامی سطح پر بھی نمایاں ہونے لگی ہے۔ سیاسی جماعت کے لیے سب سے خطرناک بات یہی ہے کہ اندرونی صفوں میں کنفیوژن پیدا ہو جائے، کیونکہ اس کا اثر براہِ راست ووٹر اور عوامی حمایت پر پڑتا ہے۔

دس مئی کے بعد سے سیاسی حالات نے پی ٹی آئی کے لیے مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔ عدالتوں سے ریلیف کم ہوتا جا رہا ہے، اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی برقرار ہے، اور عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر چند ٹرینڈز بنا کر یا کی بورڈ پر جارحانہ جملے لکھ کر پارٹی کا بحران حل نہیں ہو سکتا۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور آلہ ہے مگر حقیقی سیاست میں اسے حکمت عملی، دانشمندی اور فہم و فراست کے ساتھ استعمال کرنا ہوتا ہے، جو اس وقت پی ٹی آئی کی ٹیم کی کمزوری ہے۔

تحریک انصاف کو اس نازک مرحلے پر سوشل میڈیا کی سطحی جنگوں سے باہر نکل کر ایک سنجیدہ سیاسی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اختلاف رائے کو عزت دینی ہوگی، مکالمے کے راستے اپنانے ہوں گے، اور پارٹی میں نظم و ضبط قائم کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا واریئرز کو چاہیے کہ وہ پارٹی کے حقیقی مفاد کو مقدم سمجھیں اور جذباتی، غیر معقول رویے سے باز رہیں۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو پارٹی کو موجودہ دلدل سے نکال سکتے ہیں اور اسے دوبارہ ایک مضبوط سیاسی قوت بنا سکتے ہیں۔

اگر پی ٹی آئی نے اپنے اندرونی مسائل اور سوشل میڈیا واریئرز کی غلطیوں پر قابو نہ پایا تو مستقبل میں اسے پچھتاوے، مقدمات اور سیاسی تنہائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ وہ وقت ہے جب پارٹی کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اصلاح کا راستہ اپنانا ہوگا۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ تحریک انصاف کو کسی بیرونی طاقت نے نہیں بلکہ اس کے اپنے “کی بورڈ واریئرز” نے ڈبویا — وہ لوگ جو اپنے کمپیوٹر اور موبائل کی سکرین کے پیچھے بیٹھ کر پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts