پشاور (غگ رپورٹ) خیبرپختونخوا میں ایک کے بعد دوسرا مالیاتی اسکینڈل سامنے آرہا ہے، ٹیکسٹ بک بورڈ میں بے ضابطگیوں سے صوبائی خزانے کو 3 برسوں میں اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ غیر شفاف بولیاں، رائیلٹی، سیلز ٹیکس کی عدم وصولی، سیاسی بنیادوں پر ٹھیکوں کے ذریعے خزانے پر بوجھ ڈالا گیا۔خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ میں سنگین بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں جن کے نتیجے میں صوبائی خزانے کو 13 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2018 سے 2021 تک پی سی ایس آئی آر (پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ) لیبارٹری کے جعلی سرٹیفکیٹس کے ذریعے یہ نقصان ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی سی ایس آئی آر کی لیبارٹری کو کتابوں کے معیار، کاغذ کے انتخاب اور پرنٹنگ کی جانچ کے لیے سرٹیفکیٹس جاری کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، لیکن اس نے پرنٹنگ کے لیے منظور شدہ کتابوں کے نمونے فراہم نہیں کیے۔
بک بورڈ نے تین سال میں 15 کروڑ 10 لاکھ کتابیں چھپوائیں، 4 کروڑ 19 لاکھ اضافی کتابیں پرنٹ کر کے وسائل ضائع کیا گیا، اضافی چھپائی سے ایک ارب 60 کروڑروپے کا نقصان ہوا۔کتابوں کی پرنٹنگ کے ٹھیکوں میں بے قاعدگیاں دیکھنے میں آئیں، بولی کے بعد نرخ کم کیے گئے جس سے خیبرپختونخوا حکومت کوسات ارب 40 کروڑروپے کا ٹیکہ لگایا گیا، سیلز ٹیکس کی عدم کٹوتی، خزانے کو ایک ارب 75 کروڑروپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ان تین برسوں میں چھاپی گئی کتابوں میں کئی سنگین خامیاں سامنے آئیں، جن میں کٹائی اور پرنٹنگ کی غلط ترتیب، غیر معیاری کلر سکیم اور کور پیج کا استعمال شامل ہیں۔ معاہدے کے مطابق کتابوں کی پرنٹنگ میں 4 رنگ استعمال کیے جانے تھے، لیکن اس کے بجائے صرف 2 رنگوں کی پرنٹنگ کی گئی۔ اس کے علاوہ دھندلی اور ڈبل شیڈ پرنٹنگ کی شکایات بھی سامنے آئیں۔
پبلشرز اور پرنٹرز نے سپلائی کم ظاہرکر کے رائیلٹی کی رقم میں دھوکہ دہی کرتے ہوئے حکومت کو2 ارب 61 کروڑکا نقصان پہنچایا، کتابوں کی تاخیرسے فراہمی جرمانہ بھی نہیں کیا گیا “ ناٹ فارسیل “ کتابوں کی فروخت کر کے بھی غبن کیا گیا۔