عقیل یوسفزئی
پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو تین چار دہائیوں سے بدامنی اور کشیدگی کا سامنا ہے اور اسی تناظر میں دو اہم پڑوسی ممالک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی مختلف مواقع پر شدید تناؤ اور کشیدگی کی لپیٹ میں رہے ۔ اس پر ستم یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے جن علاقوں میں 80 کی دہائی سے بدامنی اور عدم استحکام کی صورت حال موجود رہی وہ ان دو ممالک کے پشتون علاقے ہی رہے جس کے باعث کروڑوں پشتونوں کو سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل سے دوچار ہونا پڑا اور یہ سلسلہ ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اس تمام صورتحال کے اندر نہ صرف متعدد اندرونی عوامل اور گروپ سرگرم عمل رہے ہیں بلکہ اہم علاقائی اور عالمی طاقتوں کا بھی مختلف اوقات میں بہت منفی کردار رہا ۔
گزشتہ چند مہینوں سے خطے کے اندر ری انگیجمنٹ اور ری الائنمنٹ کی جو کوششیں شروع کردی گئی ہیں ماہرین سمجھتے ہیں کہ شاید مستقبل قریب میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو جائیں تاہم ماہرین یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ مستقبل کے کسی بھی متوقع منظرنامہ میں سیاسی جماعتوں اور عوام کی آراء کو پالیسی میکنگ کا حصہ بنایا جائے ۔
پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے بعض تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً ان تمام معاملات پر سیمینارز ، ورکشاپس اور ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر چہ سرکاری تعلیمی اداروں کا اس ضمن میں کوئی خاص کردار نہیں رہا تاہم بعض پرائیویٹ اداروں کی جانب سے اس نوعیت کی ایونٹس کا اہتمام ہوتا آرہا ہےجو کہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ انہی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے اسٹوڈنٹس نے آگے جاکر نظام کو چلانا اور اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے اس لیے لازمی ہے کہ وہ بعض پیچیدہ مسائل اور چیلنجز سے پہلے سے آگاہ ہو ۔
اس ضمن میں گزشتہ روز پشاور کے ایک مثالی اور جدید تعلیمی ادارے دی میلینیم یونیورسل کالج ( ٹی ایم یو سی ) میں پاک افغان سرحد کی قانونی حیثیت اور اس سے جڑے معاملات پر ایک سیشن یا سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں فیکلٹی ممبران ، ماہرین اور اسٹوڈنٹس کے علاوہ مین سٹریم میڈیا کے نمائندوں نے پوری دلچسپی کے ساتھ شریک ہوکر بہت کھلے انداز میں اظہار خیال کیا اور تجاویز پیش کیں ۔ ” ٹی ایم یو سی” کے سینئر ذمہ داران ڈاکٹر ثمین شاہ اور شمع خان نے اس سیمینار کی ضرورت اور اہمیت کے علاوہ خطے کو درپیش چیلنجز پر مختصر مگر جامع گفتگو کی جبکہ اسلام آباد کی باصلاحیت محقق رابیعہ اور اس طالب علم نے موضوعات کے تناظر میں درپیش مسائل کے علاوہ مستقبل کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا ۔
تمام شرکاء نے خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور پاک افغان کشیدگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے دونوں پڑوسی ممالک کے بہتر تعلقات کو پورے علاقے کے امن ، استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے امکانات اور اقدامات میں تیزی واقع ہورہی ہے جو کہ بہت خوش آئند بات ہے ۔
اس موقع پر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس نے بھی سوال ، جواب کے ایک سیشن میں کھل کر اپنے تحفظات اور تجاویز بیان کیں اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ بدامنی اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی پالیسیاں اختیار کریں تاکہ خطے میں موجود کئی دہائیوں پر محیط بے چینی اور کشیدگی کا خاتمہ کیا جاسکے ۔
(جون 6، 2025)