ڈاکٹر سید اختر علی شاہ
(مصنف سابق سیکریٹری ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس ہیں)
امنِ عامہ کا قیام جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے پولیس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس ضمن میں جرائم کی روک تھام اور انکشاف آپس میں جُڑے ہوئے عوامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، پولیسنگ کا بنیادی مقصد جرائم کی پیش بندی، تفتیش اور امنِ عامہ کا قیام ہے۔
تاہم، پولیس آرڈر 2002 اور بعد ازاں خیبرپختونخوا پولیس ایکٹ 2017 کے ذریعے اصلاحات کے تمام دعووں کے باوجود، شہریوں کو کوئی حقیقی ریلیف نہ مل سکا۔ پولیس کلچر آج بھی ویسا ہی ہے، تفتیش کا روایتی اور فرسودہ انداز برقرار ہے۔
قانون اور عدلیہ کی رائے
ان دونوں قوانین کی تمہید میں آئین، قانون اور جمہوری اُمنگوں کے تحت پولیس کو ازسرِ نو منظم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، لیکن پولیس عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتر سکی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تفتیش کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احترام ضروری ہے لیکن پولیس اور پٹواری کا شاہی نظام ختم ہونا چاہیے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے 70 تولہ سونے کی کمیٹی کیس میں ناقص تفتیش پر برہمی کا اظہار کیا۔
اسی طرح، سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی اسلام آباد سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ تفتیش ایک خاص مہارت ہے، اور افسران کو پیشہ ورانہ تربیت دینا نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے تفتیش کے لیے ایک رہنما کتاب بنانے کی بھی ہدایت کی، جو عدالتی نظیروں، عملی مثالوں، تفتیشی طریقہ کار اور جدید علوم پر مبنی ہو۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے مختلف مقدمات (Crl Petition 742-L/2019 اور 629-L) میں مشاہدہ کیا کہ ہمارے معاشرے میں اصل مجرم کے رشتہ داروں کو بھی جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ تفتیشی افسر کے مشاہدات اور ان کی براہِ راست رسائی کو معمولی نہ سمجھا جائے۔
تفتیش کا مقصد اور اصول
ضابطہ فوجداری (CrPC) اور پولیس رولز کے مطابق، تفتیش کا مقصد حقائق اکٹھا کرنا اور یہ جاننا ہے کہ کیا کوئی جرم ہوا ہے، اور اگر ہوا ہے تو کون ذمہ دار ہے۔
اصل مقصد شواہد جمع کرنا ہے، نہ کہ صرف ملزم کو گرفتار کرنا۔ البتہ اگر واضح اور قابلِ اعتماد شواہد موجود ہوں تو گرفتار کرنا ضروری ہے۔
پولیس ٹریننگ اور مسائل
تجربے سے معلوم ہوا کہ پولیس کی تربیت کا معیار انتہائی کمزور ہے۔
پولیس تربیت گاہوں میں جو افسران انسٹرکٹر کے طور پر تعینات کیے جاتے ہیں، وہ اکثر غیر مطمئن اور ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ترقی کے لیے کورس کرنیوالے افسران کو CrPC، پولیس رولز 1934، یا حالیہ قوانین جیسے Investigation for Fair Trial Act 2014، Anti-Money Laundering Act، اور Prevention of Electronic Crime Act کا علم نہیں ہوتا۔ فوج میں بہترین افسران تربیت کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں، جبکہ پولیس میں برعکس ہوتا ہے، جس کے باعث کم معیار کے افسران تیار ہوتے ہیں۔
وسائل کا بہانہ اور ممکنہ اصلاحات
پولیس قیادت عموماً وسائل کی کمی کا بہانہ کرتی ہے۔
لیکن اچھے افسران کو بطور انسٹرکٹر تعینات کرنا مالی وسائل کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی وسائل کے بہتر انتظام کا معاملہ ہے۔
خیبرپختونخوا میں پولیس ٹریننگ کالج ہنگو کو مرکزی ادارہ بنایا جا سکتا ہے، جبکہ دیگر اداروں کو برانچز میں تبدیل کر کے اخراجات اور افرادی قوت کی بچت کی جا سکتی ہے۔
نتیجہ اور تجویز
بہتر معیار کی تفتیش سے پولیس کا وقار بلند ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تفتیشی عملے کو یہ ذہن نشین کروایا جائے کہ تفتیش کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے، نہ کہ صرف مدعی کی بات کو درست ثابت کرنا۔
اگر شواہد موجود نہیں، یا شکایت کے برعکس شواہد ہیں، تو تفتیشی افسر کو ایمانداری سے کام لینا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تربیتی اداروں میں ہر شعبے کے بہترین اساتذہ مقرر کیے جائیں۔
اشاعت: ایکسپریس ٹریبیون، 25 اکتوبر 2023