وفاقی حکومت کی جانب سے 176 کھرب روپے کے وفاقی بجٹ کی تیاری اور متوقع منظوری کا مرحلہ طے پاچکا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ بجٹ گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوگا کیونکہ گزشتہ 6 مہینوں کے دوران پاکستان کے معاشی حالات بوجوہ کافی بہتر ہوگئے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مشیر خزانہ اورنگزیب صاحب نے گزشتہ روز کی اپنی میڈیا بریفنگ کے دوران بعض اہداف کی حصولی میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے ۔ اعتراف کرنے سے اس حکومت کی حقیقت پسندی کا تاثر ملا ہے اور یہ توقع بھی کہ اسی تسلسل میں اس برس کوشش کی جائے گی کی متعین کردہ اہداف حاصل ہو ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اب کے وفاقی بجٹ میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مخصوص حالات کے تناظر ان صوبوں کو کی جانے والی فنڈنگ میں اضافہ ہوگا جو کہ وقت کی ضرورت ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ان صوبوں کو درپیش بیڈ گورننس اور کرپشن کے ایشوز کا بھی نوٹس لیا جائے ۔ دوسری ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں ممکنہ اضافے کا راستہ بھی ہموار کیا جائے کیونکہ 10 مئی کے بعد بھارت اعلانیہ طور پر اسلحہ کی خریداری پر ہم سے کئی گنا زیادہ بجٹ خرچ کرنے کا آغاز بھی کرچکا ہے ۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ” انکشاف” کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی ریونیو اور آمدن میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ ہم وفاقی حکومت کو قرضہ بھی دے سکتے ہیں ۔ باخبر حلقے وزیر اعلیٰ کے اس بیان اور دعوے پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ حقیقتاً ایسا ہے نہیں ۔
صوبے کے اقتصادی معاملات پر کمانڈ رکھنے والے صحافی عرفان خان نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت بھی خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت مختلف اداروں کے تقریباً 700 ارب روپے کا مقروض ہے۔ ان کے بقول گزشتہ بجٹ کے دوران بہت کم ترقیاتی فنڈز خرچ کیے گئے ہیں اور صوبائی حکومت غلط بیانی سے کام لیتی آرہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے صوبائی بجٹ کی تیاری پر توجہ دیکر سیاسی بیان بازی کی بجائے صوبے سے کرپشن اور بیڈ گورننس جیسے ناسوروں کا خاتمہ کیا جائے ۔
(جون 10، 2025)