بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالی سال 2025–26 کے لیے 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے، جس میں مختلف شعبوں کے لیے متعدد مثبت اقدامات اور اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں۔ تاہم، اس بجٹ میں بھی ماضی کی طرح کچھ منفی پہلو موجود ہیں۔ مثبت اقدامات میں غریبوں کی مالی مدد کے لیے قائم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لیے 716 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز شامل ہے، جو کہ رواں مالی سال کے 592.48 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومت غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کو اپنی ترجیحات میں اہم مقام دے رہی ہے۔ تاہم، یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا صرف نقد امداد کے ذریعے غربت کا خاتمہ ممکن ہے؟ یا اس کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کو بااختیار بنانے کے لیے مؤثر اور دیرپا عملی اقدامات بھی ناگزیر ہیں؟
بی آئی ایس پی کا شمار پاکستان کے چند کامیاب ترین سماجی تحفظ کے پروگراموں میں ہوتا ہے۔ اس نے خاص طور پر خواتین کے زیرِ کفالت خاندانوں کے لیے ایک بنیاد فراہم کی ہے، جس سے وہ کم از کم روزمرہ کی ضروریات پوری کر سکتی ہیں۔ان علاقوں میں جہاں روزگار کے مواقع محدود ہیں اور بنیادی سہولیات تک رسائی دشوار ہے، یہ معمولی سی امداد بھی ان کے لیے سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔۔ مثال کے طور پر ایک ایسی خاتون کی کہانی لیجیے جو پانچ بچوں کی ماں ہے، شوہر بیمار ہے، اور آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں۔ وہ بی آئی ایس پی سے ملنے والی رقم سے آٹا، دال، دودھ اور کبھی کبھار دوا خرید لیتی ہیں۔ مگر ہر مہینے کے آخر میں ان کے ذہن میں یہی سوال گونجتا ہے: “اگلا مہینہ کیسے گزرے گا؟” ان کے لیے یہ امداد ایک وقتی سہارا تو ہے، مگر ایک طویل مدتی حل نہیں۔
اسی طرح، جنوبی پنجاب، اندرونِ سندھ، اور بلوچستان کے متعدد اضلاع میں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جو بی آئی ایس پی کے مرہونِ منت اپنی بقا کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر کو نہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، نہ ہنر سیکھنے کی سہولت، اور نہ ہی کوئی ایسا راستہ نظر آتا ہے جس سے وہ اس دائمی انحصار سے نکل کر خودمختاری کی طرف بڑھ سکیں۔ بین الاقوامی سطح پر نقد امداد کے ماڈل کی کامیابی کا انحصار اس بات پر رہا ہے کہ اسے دیگر سماجی و معاشی پروگراموں کے ساتھ کس حد تک مربوط کیا گیا۔ برازیل میں متعارف کردہ “بولسا فامیلیا” پروگرام اس حوالے سے ایک نمایاں مثال ہے، جو 2003 میں شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت غریب خاندانوں کو اس شرط پر نقد امداد دی جاتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں اور بنیادی طبی معائنے کروائیں۔ اس کے ذریعے نہ صرف غربت میں کمی واقع ہوئی بلکہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی بہتری آئی۔ اسی طرح، میکسیکو کا “پروسپرا” پروگرام (جو پہلے “اوپورٹونی دادیس” کہلاتا تھا) بھی اسی ماڈل پر مبنی تھا، جس میں غریب خاندانوں کو بچوں کی تعلیم اور صحت سے مشروط مالی معاونت فراہم کی جاتی تھی۔ ان پروگراموں نے غربت کو محض وقتی طور پر کم کرنے کے بجائے، انسانی ترقی کی بنیاد فراہم کی اور لاکھوں خاندانوں کو مستقل خودکفالت کی طرف گامزن کیا۔
بنگلہ دیش میں بی آر اے سی نے جو “گریجویشن ماڈل” متعارف کرایا، وہ آج دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک قابل تقلید مثال بن چکا ہے۔ اس ماڈل کے تحت انتہائی غریب خواتین کو نقد امداد کے ساتھ کاروباری اثاثے (مثلاً بکری یا سلائی مشین)، پیشہ ورانہ تربیت، مسلسل رہنمائی، اور منڈی تک رسائی فراہم کی گئی۔ نتائج حیران کن تھے: 75 فیصد سے زائد خواتین نے مستقل بنیادوں پر آمدنی حاصل کرنا شروع کی، خود اعتمادی میں اضافہ ہوا، اور ان کا سماجی مقام بہتر ہوا۔ بی آر اے سی، جس کی بنیاد 1972 میں رکھی گئی تھی، بنگلہ دیش کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو آج دنیا کی سب سے بڑی این جی او کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ تنظیم غربت کے خاتمے، تعلیم، صحت، خواتین کو بااختیار بنانے، اور معاشی ترقی جیسے شعبوں میں نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی سرگرم عمل ہے۔
پاکستان کے لیے بھی یہی ماڈل نہایت موزوں ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک کو معاشی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری اور عدم مساوات جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں تعلیم تو میسر آئی ہے، مگر روزگار کے مواقع نہیں۔ ایسے میں صرف نقد امداد دینا مسئلے کا حل نہیں — بلکہ مسئلے کی طوالت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ نقد امداد بلاشبہ وقتی طور پر مؤثر ثابت ہو سکتی ہے، مگر یہ غربت کا مستقل حل نہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے ایک جامع سماجی حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت مستحق افراد کو ہنر، کاروباری اثاثے اور منڈی تک رسائی فراہم کی جائے، تاکہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک کوئی مربوط “مرحلہ وار” پالیسی موجود نہیں جس کے تحت غریب فرد پہلے نقد امداد حاصل کرے، پھر تربیت، پھر روزگار یا چھوٹے کاروبار کے مواقع۔ اگر بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے فرد کے لیے کوئی واضح “ایگزٹ روٹ” نہ ہو تو یہ پروگرام محض مستقل انحصار پیدا کرے گا، جس سے معاشرے اور معیشت دونوں پر بوجھ بڑھے گا۔ حکومت کے لیے سب سے مؤثر حکمتِ عملی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ایک بنیادی سماجی تحفظ کے نظام کے طور پر برقرار رکھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک مربوط اور تدریجی ماڈل بھی نافذ کرے۔
اس ماڈل کا پہلا مرحلہ اُن خاندانوں کے لیے ہونا چاہیے جو مکمل طور پر بے سہارا ہیں اور فوری امداد کے مستحق ہیں۔ ان افراد کو غیر مشروط نقد امداد فراہم کی جائے تاکہ ان کی بنیادی ضروریات فوری طور پر پوری ہو سکیں۔ دوسرے مرحلے میں، امداد کو کچھ سماجی شرائط سے مشروط کیا جائے، مثلاً بچوں کی اسکول میں حاضری، خواتین کی صحت کا خیال، یا بچوں کی ویکسینیشن۔ اس مرحلے کا مقصد صرف مالی سہارا دینا نہیں بلکہ انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کرنا ہے تاکہ اگلی نسلیں تعلیم یافتہ، صحت مند اور بہتر مواقع کی حامل ہوں۔ تیسرے اور اہم ترین مرحلے میں، امداد کو معاشی خودمختاری کی بنیاد بنایا جائے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مستحق افراد کو پیشہ ورانہ تربیت، کاروباری اثاثے، آسان شرائط پر قرضے، اور منڈی تک رسائی فراہم کرے تاکہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ جب کوئی فرد یا خاندان مستقل آمدنی کے قابل ہو جائے تو وہ نہ صرف امداد کا محتاج نہیں رہتا بلکہ ملکی معیشت میں ایک فعال کردار ادا کرتا ہے۔
اس ماڈل کی آزمائش کے لیے حکومت سندھ، خیبرپختونخوا یا بلوچستان کے مخصوص اضلاع میں پائلٹ منصوبے شروع کر سکتی ہے، جنہیں بعد میں قومی سطح پر وسعت دی جائے۔ اس وقت حکومت جو بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے، وہ خوش آئند ہے — مگر اگر یہی رقم بغیر کسی دیرپا حکمت عملی کے صرف کر دی جائے تو یہ موقع ضائع ہو جائے گا۔ ہمیں محض بقا کی طرف نہیں، بلکہ وقار، اختیار اور معاشی ترقی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا: ہم غریبوں کو ہر مہینے کی گزر بسر کے لیے نقد رقم دیتے رہیں گے، یا اُنہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا راستہ دیں گے؟ بقا کے لیے امداد ضرور دیں، مگر زندگی بدلنے کے لیے راستے بھی بنائیں۔ نقد امداد سے بقا ممکن ہے، مگر غربت کے دائمی خاتمے کے لیے خودانحصاری ضروری ہے۔
جو افراد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دائرے سے باہر ہیں، حکومت کو اُن کے لیے بھی مؤثر اور دیرپا اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ موجودہ حالات میں مہنگائی، بے روزگاری اور پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ عام شہری کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ حکومت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو سہولیات فراہم کرے، نوجوانوں کے لیے ہنرمندی کے پروگرام متعارف کروائے، اور مقامی صنعتوں کی بحالی کے لیے ٹیکس اور پالیسی اصلاحات نافذ کرے۔ پائیدار ترقی کا انحصار صرف مالی امداد پر نہیں بلکہ عوام کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنے پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کو بھی قومی ترجیحات میں اولین درجہ دینا ہوگا، تاکہ ایک مضبوط، بااختیار اور خوشحال معاشرہ تشکیل پا سکے۔