بیر سٹر ڈاکٹر عثمان علی
ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ انسانی ترقی، سفارت کاری اور باہمی احترام کا زمانہ ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا ایک بار پھر اندھیر نگری، قتل و غارت، اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جس نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا، پھر ایران پر براہِ راست حملہ، اور اب ایران کی جوابی کارروائی ـ یہ سب دنیا کو ایک سنگین عالمی بحران کی طرف دھکیل چکے ہیں۔ لیکن شاید سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس ساری تباہی پر یا تو خاموش ہیں، یا خود اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 55,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ وہ چہرے ہیں جنہوں نے اسکولوں، ہسپتالوں اور گھروں میں شہادت پائی۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بارہا خبردار کر چکی ہیں کہ اسرائیلی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ 14 سالہ ہدیٰ، جس کے والدین اور دو بہن بھائی ایک ہی حملے میں جاں بحق ہو گئے، کہتی ہے: “وہ کہتے ہیں ہم دہشتگرد ہیں، لیکن میرے ننھے منے بھائی نے تو ابھی بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔”
اور جب دنیا ابھی اس سانحے کے صدمے سے نکل بھی نہیں پائی تھی، اسرائیل نے ایران پر براہِ راست حملہ کر دیا۔ 13 جون 2025 کو “آپریشن رائزنگ لائن” کے نام سے اسرائیل نے 200 سے زائد جنگی طیارے استعمال کرتے ہوئے ایران کے جوہری مراکز، نطنز اور فردو سمیت، پر بمباری کی۔ اس حملے میں ایرانی اعلیٰ عسکری قیادت، سائنسدان اور عام شہری مارے گئے۔ یہ خود دفاع نہیں، بلکہ کھلی جارحیت تھی اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی بھی ۔
13 جون 2025 کو ایران نے اسرائیل پر جوابی کارروائی میں 150 سے زائد بیلسٹک میزائل اور 100 سے زائد ڈرونز داغے۔ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملے کے ردعمل میں کیا گیا۔
اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام ، جسے امریکی دفاعی سسٹمز کی مدد بھی حاصل تھی ، نے بیشتر میزائلوں اور ڈرونز کو روک لیا، تاہم کچھ میزائل اسرائیلی شہروں تک پہنچ گئے، خاص طور پر تل ابیب میں دھماکوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ حملے کے دوران پورے ملک میں ہوائی حملے کے سائرن بجائے گئے، اور عوام نے پناہ گاہوں میں پناہ لی، جس سے شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ مشرق وسطیٰ کی فضائی حدود بند ہو گئیں، تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، اور عالمی منڈیاں لرز گئیں۔ اب خوف یہ ہے کہ یہ محض آغاز ہے اور اگلا قدم جوہری تباہی ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ہے: اقوام متحدہ کہاں ہے؟ وہ ادارہ جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد اس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا کہ دنیا کو ایسی تباہی سے بچایا جا سکے، وہ آج مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر نہ کوئی بامعنی قرارداد پاس ہوئی، نہ کسی تحقیقاتی مشن کو اجازت دی گئی، اور نہ ہی کسی قسم کی پابندیاں لگائی گئیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ آج طاقتور ملکوں، خصوصاً امریکہ کی وٹو پاور کے باعث، اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
امریکہ کا کردار اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایک طرف وہ اسرائیل کو جدید ہتھیار، اربوں ڈالر کی فوجی امداد، اور عالمی سطح پر سیاسی تحفظ دیتا ہے۔ اور دوسری طرف، جب ان کارروائیوں کا نتیجہ ردعمل کی صورت میں سامنے آتا ہے، تو وہ خود کو ایک “غیر جانب دار ثالث” ظاہر کرتا ہے۔ یہ دوہرا معیار خطرناک بھی ہے اور شرمناک بھی۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ کچھ ممالک قانون سے بالاتر ہیں، اور بعض کو صرف شک کی بنیاد پر تباہ کر دیا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جیسے رہنما، جو ذاتی اقتدار، مقبولیت اور طاقت کے نشے میں مدہوش ہیں، اپنی قوم کو مستقل جنگ کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ شاید وہ وقتی طور پر عسکری برتری حاصل کر لیں، مگر یہ دیرپا امن کی ضمانت نہیں۔ ظلم اور ذلت کے نتیجے میں کبھی امن نہیں آیا بلکہ ہمیشہ بغاوت، مزاحمت اور تباہی جنم لیتی ہے۔
یہ محض اخلاقی ناکامی نہیں، بلکہ تزویراتی خودکشی بھی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے بھی یہی غلطیاں کر چکے ہیں۔ عراق، لیبیا اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ حکومتیں گرائی گئیں، مگر امن نہیں آیا۔ دہشتگردی پھیلی، لاکھوں شہری مارے گئے، اور آج تک ان خطوں میں استحکام نہیں آ سکا۔ اب یہی کہانی مشرق وسطیٰ میں، اس بار جوہری خطرے کے سائے میں، دہرائی جا رہی ہے۔
اس بحران سے نکلنے کا راستہ صرف طاقت میں نہیں، بلکہ انصاف، مکالمے اور عالمی ذمہ داری میں ہے۔ سب سے پہلے، فوری جنگ بندی ہونی چاہیے، جس کی نگرانی بین الاقوامی مبصرین کریں۔ دوسرا، اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کو عالمی معاہدوں کے تحت ریگولیٹ کیا جائے۔ تیسرا، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد کو انسانی حقوق اور قانون کی پاسداری سے مشروط کیا جائے۔ چوتھا، مشرق وسطیٰ میں حقیقی سفارت کاری شروع کی جائے، جس میں فلسطین، ایران اور دیگر علاقائی طاقتیں شامل ہوں۔ اور پانچواں، دنیا بھر کے عوام آواز بلند کریں، چاہے وہ مظاہرے ہوں، بائیکاٹ، یا سیاسی دباؤ، خاموشی اب جرم بن چکی ہے۔
یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے: یہ کوئی برابر کی جنگ نہیں۔ یہ مذہبی مسئلہ نہیں، نہ سیکیورٹی کا بہانہ۔ یہ ایک طاقتور ریاست کی طرف سے مسلسل زیادتی، قبضے، اور انسانی جانوں کی تذلیل کی کہانی ہے۔ اور یہ اُن عالمی طاقتوں کی بے حسی کی داستان ہے، جو صرف اپنے مفادات کے لیے انصاف کو قربان کر دیتے ہیں۔
سال ہے 2025۔ ہمارے پاس وہ تمام علم، تاریخ، اور وسائل موجود ہیں جن کے ذریعے ہم اختلافات کو حل کر سکتے ہیں۔ مگر ہم خود کو ایک ایسی کھائی کی طرف دھکیل رہے ہیں، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ اگر جنگِ عظیم شروع ہوئی، اور جوہری ہتھیار استعمال ہوئے، تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، نہ تل ابیب، نہ تہران، نہ واشنگٹن۔
ہم بےبس نہیں ہیں۔ ابھی وقت ہے۔ مگر یہ فیصلہ اب صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ لمحہ ایک انتخاب ہے: انصاف، مکالمہ اور امن، یا جنگ، تباہی اور بربادی۔
فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ مگر تاریخ اب بھی ہمیں دیکھ رہی ہے۔