GHAG

خیبرپختونخوا کا بجٹ اور قبائلی علاقوں کی پسماندگی

خیبرپختونخوا کا بجٹ اور قبائلی علاقوں کی پسماندگی

خیبرپختونخوا کا بجٹ گزشتہ روز اپوزیشن کے بھرپور شور شرابے میں پیش کیا گیا ۔ اپوزیشن نے “علی بابا اور چالیس چور” کے نعرے لگائے جبکہ وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر میں بجٹ میں اپوزیشن کی تجاویز شامل کرنے کی پیشکش کی ۔ قبل ازیں حکمران جماعت کی کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے رسمی اجلاس منعقد کیے گئے ۔ کابینہ نے ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملے کی بھی شدید مذمت کی اور بجٹ کا جائزہ لیا ۔ بجٹ دستاویز کے مطابق حکومت نے 157 ارب روپے کا ” سرپلس” بجٹ پیش کیا ہے جس کا مجموعی حجم دو ہزار 119 ارب روپے لگایا گیا ہے ۔ جس میں اخراجات کا تخمینہ ایک ہزار 962 ارب روپے ہے جو کہ کافی زیادہ ہے اور اس جانب اشارہ ہے کہ صوبے میں غیر معمولی یا غیر معمولی اخراجات کیے جاتے رہے ہیں ۔

اس کو کن بنیادوں پر سرپلس بجٹ قرار دیا گیا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اور بظاہر اس دعوے کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا حربہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ عملاً صوبے کو نہ صرف یہ کہ تقریباً 800 ارب کے قرضوں کا سامنا ہے بلکہ گزشتہ برس صوبے میں کوئی ایک بھی بڑا پراجیکٹ شروع نہیں کیا گیا ۔ یہاں تک کہ سرکاری سکولوں کو کتابیں فراہم کرنے میں بھی یہ حکومت ناکام رہی اور متعدد بار مختلف سرکاری اداروں کی تنخواہیں بھی تعطل کا شکار رہیں ۔

بجٹ کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال ضم قبائلی اضلاع کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے کم فنڈنگ کرنے سے صوبائی حکومت کو اپنے دیگر وسائل سے تقریباً 70 ارب روپے اضافی خرچ کرنے پڑے جبکہ دستاویز کے مطابق آیندہ مالی سال کے لیے بھی وفاقی حکومت نے اخراجات کے مقابلے میں 154 ارب کم مختص کئے ہیں ۔ یہ دونوں باتیں یا شکایات جائز نہیں لگتیں کیونکہ ان قبائلی اضلاع کے بارے وفاقی حکومت آن دی ریکارڈ تکرار کے ساتھ یہ کہتی آرہی ہے کہ وہ مختلف مراحل میں خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع اور سیکورٹی کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران تقریباً 700 ارب روپے ادا کرتی آرہی ہے ۔ یہی موقف اپوزیشن ، گورنر خیبر پختونخوا اور متعلقہ ماہرین کا بھی رہا ہے اس لیے لازمی ہے کہ صوبائی حکومت اس اہم معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کریں کیونکہ ان ضم اضلاع کو واقعتاً معاشی اور انتظامی طور پر شدید مشکلات کا سامنا ہے اور سیکورٹی چیلنجر کے باوجود حالات اس نوعیت کے ہیں کہ پولیس فورس کے ایک بڑے حصے کے پاس درکار ہتھیار اور گاڑیوں کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ہیں ۔ اگر چہ اس بجٹ میں خیبرپختونخوا پولیس کی تنخواہیں پنجاب کے برابر لانے کی تجویز دی گئی ہے تاہم اس پر عملدرآمد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ایسے اعلانات ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں ۔

بجٹ میں ایسے کسی بڑے ترقیاتی منصوبے کا ذکر نہیں ہے جس کو قابل ذکر یا غیر معمولی قرار دیا جائے ۔ وزیر اعلیٰ نے عید کے دوران کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کا بجٹ ٹیکس فری ہوگا مگر متعدد شعبوں میں نہ صرف یہ کہ نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں بلکہ پہلے سے نافذ متعدد ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے یہاں تک کہ فی مقدمہ کے حساب سے وکلاء پر بھی ” ٹیکس” لگایا گیا ہے ۔

خلاصے کے طور پر محض اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس بجٹ کو روایتی بجٹ کے علاؤہ دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا اور یہ پی ٹی آئی کے ماضی کے ہر بجٹ کا ایک تسلسل دکھائی دے رہا ہے۔

(جون 14، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts