GHAG

ایران اور اسرائیل کی جنگ: چیونٹیوں کا ہاتھیوں سے ٹکراؤ

ایران اور اسرائیل کی جنگ: چیونٹیوں کا ہاتھیوں سے ٹکراؤ

اے وسیم خٹک

جنگ شروع ہو چکی ہے اور شدت کے ساتھ جاری ہے۔ دونوں ممالک ایران اور اسرائیل کو جوہری، دفاعی اور جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنگ کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ ایک دن کی لڑائی کسی ملک کو کئی سال پیچھے دھکیل دیتی ہے، اور دوبارہ سنبھلنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری اس کشیدگی کی کہانی کب اور کیسے شروع ہوئی، اس پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ لیکن سوال صرف آغاز کا نہیں، انجام کا ہے۔

ایک معروف قول ہے کہ کبھی بھی دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔ مگر طاقت کے زعم میں مبتلا عناصر ہمیشہ اس حقیقت کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں خود کو ناقابل شکست سمجھتی ہیں، وقت انہیں زمین پر لے آتا ہے۔

ہمارے سامنے حالیہ مثالیں موجود ہیں — روس اور یوکرین، بھارت اور پاکستان، اور اب اسرائیل اور ایران۔ تکنیکی اعتبار سے روس، بھارت اور اسرائیل طاقتور شمار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی، وسائل، اور عسکری صلاحیتیں موجود ہیں۔ جبکہ ایران، یوکرین اور پاکستان جیسے ممالک اکثر کمزور سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ جب چیونٹیاں ہاتھیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، تو ہاتھیوں کو بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

روس اور یوکرین کی جنگ ابھی تک جاری ہے۔ یوکرین، جو بظاہر روس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا، آج روسی طیارے تباہ کر رہا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیونکہ کمزور ملک اکثر تنہا نہیں ہوتے، ان کے پیچھے کچھ طاقتیں اور پس پردہ عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال بھارت اور پاکستان کے درمیان دیکھی گئی، اور اب ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی کچھ اسی نوعیت کا منظر سامنے آ رہا ہے۔

ایران اور اسرائیل کی حالیہ لڑائی نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ ایران کے سپریم کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدانوں کو ان کے اپنے ملک میں نشانہ بنایا گیا۔ ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا، اور اس کا نتیجہ بھی متوقع تھا. ایران نے تل ابیب سمیت اسرائیل کے دیگر شہروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچ چکا ہے۔ ایران کی جوابی کارروائی شدید اور منظم تھی، جس نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔

اگر یہی شدت برقرار رہی تو یہ جنگ صرف ایران اور اسرائیل تک محدود نہیں رہے گی۔ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اس دائرہ کار میں آجائیں گے۔ ایران ممکنہ طور پر اپنے پراکسی نیٹ ورک، جیسے حزب اللہ، حماس، اور عراق و شام میں موجود شیعہ ملیشیاؤں کو متحرک کر سکتا ہے۔ ان گروہوں کی موجودگی اور اثر رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو خطے میں ایران کے نظریاتی اور عسکری ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

دوسری جانب، اسرائیل بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا۔ امریکہ اس کا دیرینہ اتحادی ہے، اور بعض عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے دفاعی مقاصد میں اس کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ خاص طور پر ایران کے حساس اور ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوں گے۔

یہ جنگ صرف دو ممالک کی لڑائی نہیں، بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگا سکتی ہے۔ اگر اقوام متحدہ، او آئی سی، یا عالمی طاقتوں نے فوری اور مؤثر مداخلت نہ کی تو یہ تنازع ایک مکمل علاقائی جنگ میں تبدیل ہو جائے گا۔ ایسی جنگ جس کا انجام ناقابلِ واپسی نقصان، انسانی المیے، مہاجرین کے بحران، معیشت کی تباہی، اور تہذیبی زوال کی شکل میں سامنے آئے گا۔

اس صورتحال میں عالمی برادری کو اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ اقوام متحدہ کو فوری طور پر فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے۔ امن قائم کرنا صرف ایران اور اسرائیل کی ضرورت نہیں، بلکہ پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ مشرق وسطیٰ پہلے ہی کئی دہائیوں سے جنگ، دہشت گردی، اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ دنیا ان تنازعات کا مستقل اور منصفانہ حل تلاش کرے، ورنہ ایک نئی عالمی جنگ کا آغاز اسی خطے سے ہو سکتا ہے۔

تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ طاقت کا زعم وقتی ہوتا ہے، مگر امن کا پیغام دائمی ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر انسانی جانوں کی قدر کریں اور ایک پرامن مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts