GHAG

پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیش رفت

پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیش رفت

ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی مشاورت کے پہلے باضابطہ دور کے اختتام پر دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ، علاقائی تعاون اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مکالمے کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیاہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغان وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل مفتی نور احمد نور کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ سے اسلام آباد میں ملاقات کے موقع پر دونوں فریقین نے بات چیت کے تسلسل اور کھلے رابطے کو دوطرفہ تعلقات کے استحکام کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور باقاعدہ سیاسی مشاورت سے نہ صرف دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ باہمی تحفظات بھی مؤثر انداز میں دور کیے جاسکیں گے۔ انہوں نے خطے میں پائیدار امن، استحکام اور خوش حالی کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔ اس اہم پیش رفت سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا کو فروغ ملے گا اور خطے میں رابطوں کو وسعت دینے کا عمل آگے بڑھے گا۔ افغانستان پاکستان کا قریب ترین ہمسایہ ملک ہے، کہتے ہیں کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں تاہم ہمارے مغربی ہمسائے کا رویہ اور اقدامات کچھ ایسی نوعیت کے رہے ہیں کہ انہیں گوارا کرنا پاکستان تو کیا دنیا کے لئے کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاک افغان تعلقات میں کئی موڑ آئے اب جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت ایک بار پھر سے قائم ہے، پاک افغان تعلقات نئے موڑ پر کھڑے معلوم ہوتے ہیں اور یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ موجودہ پاک افغان تعلقات میں در آنے والی کڑواہٹ کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اس کا ایک تو سیدھا سادا سا جواب یہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت پورے ملک پر اپنی رٹ قائم نہیں کر سکی بظاہر افغان طالبان کا پورے ملک پر کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت ملک میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن آپریشن کرنے میں تاحال ناکام نظر آتی ہے۔

پاک افغان سرحد پر کشیدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آخر افغان سرحد پاکستان کے لئے محفوظ کیوں نہیں؟ کیا افغان طالبان اپنی خدمات ہر اس ریاست یا گروہ کے لئے پیش کریں گے جو انہیں مالی معاونت فراہم کریں۔ بظاہر افغان عبوری حکومت کی جانب سے اپنائے گئے طرز عمل سے اس مفروضے کو خاصی تقویت مل رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہو جانے کے بعد پاکستان میں ایک مخصوص لابی عوام کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہو جائے گی ایسا ممکن نہیں ہو سکامگر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ بہتری کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ 21 مئی کو بیجنگ میں ہونے والی پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی ملاقات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی مشاورت کے پہلے باضابطہ دور کے اختتام پر دونوں ممالک کا دو طرفہ تعلقات کے فروغ، علاقائی تعاون اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مکالمے کو آگے بڑھانے پر اتفاق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کابل کی عبوری حکومت میں فکری سطح پر کچھ مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل مفتی نور احمد نور کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ سے ملاقات میں فریقین کا بات چیت کے تسلسل اور کھلے رابطے کو دوطرفہ تعلقات کے استحکام کے لئے ناگزیر قرار دینا باعث اطمینان ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دہائیوں پر مشتمل تناؤ کا دونوں مسلم ممالک کے امن اور معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے، خدانخواستہ یہ تناؤ بر قرار رہا اور اغیار اپنی سازشوں میں کامیاب ہو گیا تو مستقبل میں یہ تناؤ مزید خرابیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانوں کے لئے اقبال کی سوچ و فکر کی تائید کی۔ افغان قوم کے جن اوصاف کو مد نظر رکھ کر پاکستان ہمیشہ پیار اور ہمدردی کا رشتہ نبھاتا آیا ہے اسی ہمدردی کی آج پاکستان کو افغانستان سے بھی توقع ہے۔ آئے روز افغان بارڈر سے پاکستانی حدود میں دراندازی کسی بڑے واقع کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔پاک افغان مذاکرات ایک اہم پیشرفت ہے، طویل عرصے سے جذبہ خیر سگالی اور بات چیت سے مسائل حل کرنے کے جس میکانزم کا انتظار تھا، بالآخر وہ سامنے آگیا ہے۔ دونوں ملکوں کا امن اور خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے، المیہ مگر یہ ہے کہ دونوں کا مشترکہ دشمن دہشت گردی کے ذریعہ سے دونوں ملکوں میں افراتفری اور بدامنی پیدا کرنے کے درپے ہے، جس کا پاکستان نے بار بار ا ظہار کیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ افغان حکومت بھی پہلی مرتبہ مثبت رد عمل دے رہی ہے، لیکن افغان حکومت کا دہشت گردی کے خلاف تعاون مستحسن ضرور ہے لیکن انتہائی نا کافی ہے۔ جب تک افغان سرزمین استعمال کرنے والے دہشت گردوں سے آ ہنی ہاتھوں کے ساتھ نہیں نمٹا جائے گا، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت گرد صرف پاکستان کے ہی نہیں افغانستان کے بھی اتنے ہی دشمن ہیں، ایران پر اسرائیلی حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارتی پراکسیز وقت آنے پر مسلم ممالک کی دشمن ہی ثابت ہوتی ہیں۔ لازم ہے کہ کسی نازک لمحے کے آنے سے پہلے افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرے اور اپنے امیر کے اس فتوے کو عملا نافذ کرے جس میں کہا گیا ہے کہ” افغانستان سے باہر کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف مسلح کارروائی جہاد نہیں بلکہ دہشت گردی ہے”۔

افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاک ملک ہے اور بیرونی دنیا سے تجارت کے لئے وہ اپنے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران پر انحصار کرتا ہے اس لئے اسے اپنی تمام برآمدات اور خاص کر درآمدات کے لئے پاکستان کی بندگاہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان کو اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ پہلے 1965 اور بعد ازاں 2010 میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنا پڑا تھا جن کے تحت پاکستان افغانستان کو زمینی راستوں سے نہ صرف اپنی بندرگاہوں تک رسائی دینے کا پابند ہے بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اسے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت کئی مراعات بھی حاصل ہیں۔ یادر ہے کہ ان معاہدوں کے تحت افغانستان پاکستان کے ساتھ زیادہ تر تجارت تو طور خم اور چمن کے راستوں سے کرتا ہے لیکن کچھ عرصے سے پاک افغان باہمی تجارت میں کچھ رکاوٹیںحائل ہیں جس کی وجہ سے دونوں جانب کی تجارت زبوں حالی کی طرف گامزن ہے اور دونوں ممالک کے درمیان گشیدگی او رتناؤ کی صورت حال ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں مگر حالیہ برسوں میں سفارتی کشیدگی،سیکیورٹی خدشات اور پالیسیوں میں عدم تسلسل نے انہیں بری طرح متاثر کیا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم جو کبھی ڈھائی ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا تھا، اب گھٹ کر ڈیڑھ ارب ڈالرز تک آچکا ہے۔

خاص طور پر طورخم سرحد کی بندش، جو تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے جاری رہی ، نے تجار تی سرگرمیوں کو تقریباً مفلوج کر دیا ہے اور تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور عام شہریوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ سرحد کی بندش کے باعث پاک افغان شاہراہ پر مال سے لدے سینکڑوں ٹرک مختلف مقامات پر کھڑے رہے، جن میں پڑی اشیاء خراب ہو گئیں۔گزشتہ دنوں افغانستان کے لئے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق کے دورہ کابل کے حوالے سے نتیجہ خیز ملاقاتوں اور اہم پیشرفت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ بھارت کبھی ان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ سوویت یونین سے لے کر امریکہ تک جس نے بھی افغانستان کے خلاف جارحیت کی بھارت ہمیشہ اس کا دست راست رہا ۔اب بھی اسے موقع ملنے کی دیر ہے وہ کابل کے حکمرانوں کو ڈسنے سے گریز نہیں کرے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام سے تعاون کیا ہے ان کی مدد کی ہے گزشتہ نصف صدی سے پاکستان 50 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رہا ہے، اب بھی 24 لاکھ کے قریب افغان مہاجر پاکستان میں موجود ہیں۔

پڑوسی ممالک کے حوالہ سے پاکستان نے ہمیشہ سفارتکاری، امن اور ترقی پر زور دیا ہے، اور حالیہ مذاکرات اس پالیسی کے عکاس ہیں۔ افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اسے اپنے عوام کی ترقی، خوش حالی اور دفاع کے لئے جو کچھ درکار ہے یہ تعاون اسے پاکستان کے علاوہ کہیں اور سے نہیں مل سکتا۔ افغانستان کا قدرتی اتحاد بھارت سے نہیں پاکستان کے ساتھ بنتا ہے۔ افغان حکومت سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت جنوبی ایشیائی اور وسط ایشیائی خطے میں ترقی کی شراکت دار بن سکتی ہے۔ یہ افغان قیادت کی فراست کا امتحان ہے کہ وہ بر وقت اور درست فیصلوں کے ذریعے ترقی، خوش حالی اور خود مختاری کی منزل کو خود سے قریب کرتی ہے یا اس موقع کو گنوا بیٹھتی ہے امید یہی کہ خطے میں پائیدار امن ،ترقی وخوش حالی اور اپنے عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنے علاقائی پارٹنرز کے ساتھ چلنے کو ترجیح دے گی۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی قربت اور اعتماد سازی دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts