GHAG

” احترام کرو ـ احترام پاؤ “

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

عمران خان نے سیاست میں ذلت، گالی اور نفرت کا جو کلچر متعارف کرایا تھا، وہ اب انہی کے دروازے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ جوتے، سیاہی، انڈے، گالیاں اور سوشل میڈیا کی غلاظت، سب ہتھیار جو مخالفین کے خلاف تراشے گئے تھے، آج انہی کے خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا، اور پاکستان بھی اب اسی المیے کا شکار ہے۔

“احترام کرو، احترام پاؤ۔” یہ سادہ سا اصول ہے جس پر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی۔ مگر پاکستان کی سیاست میں، جہاں دلیل کے بجائے گالی اور کردار کشی کا چلن عام ہو گیا ہے، یہ اصول قدم قدم پر پامال ہوتا ہے۔

صدیوں پہلے یہ لازوال انتباہ دیا گیا تھا: “جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے۔” یہ بات تقریباً دو ہزار سال قبل پولُس حواری (عیسائی روایت کے مطابق) نے گلتیوں (ترکی کے ایک علاقے کی قوم) کو اپنے خط میں لکھی تھی۔ اس میں وہ ابدی حقیقت بیان ہوئی تھی کہ اعمال کے نتائج ضرور سامنے آتے ہیں۔ صدیوں سے یہ جملہ انگریزی اور دیگر زبانوں کی کہاوتوں، ادب اور روزمرہ زبان کا حصہ رہا ہے۔ یہ بادشاہوں، حکمرانوں اور عام انسانوں سب کو یاد دلاتا رہا کہ جو بیج نفرت یا فریب کے بوئے جائیں گے، وہی فصل بن کر واپس آئیں گے۔ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ انسان اپنے اچھے اعمال کا پھل آخرکار خود ہی پاتا ہے، اور برے اعمال کا بوجھ بھی اُسے خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ انسان صدیوں کے تجربات اور حادثات کے باوجود بار بار وہی غلطیاں دہراتا ہے۔

گزشتہ روز علیمہ خان پر انڈا پھینکے جانے کا افسوسناک واقعہ اسی المیے کا تسلسل ہے۔ یہ محض ایک معمولی حرکت نہیں بلکہ ایک پوری سیاسی روش کی بازگشت ہے جسے عمران خان اور ان کی جماعت نے متعارف کرایا۔ برسوں تک پاکستانی سیاست سخت ضرور رہی، لیکن ذاتی ذلت، جوتے مارنا، سیاہی پھینکنا، انڈے اچھالنا اور خاندانوں کی عزت اچھالنا اس کا حصہ نہیں تھا۔ اگر کسی وقت کسی پارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال کی تو اس پر باقاعدہ معافی مانگی گئی اور پھر نہ صرف ایسی باتوں سے اجتناب کیا گیا بلکہ ساتھ مل بیٹھ کر اتحاد بنائے اور مخلوط حکومتوں کا حصہ بنے۔ کارکن بھی ایک دوسرے کے قریب آئے اور باہمی احترام اور اشتراک کا جذبہ فروغ پایا، جو سیاست اور جمہوریت کا خاصہ اور خوبصورتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان اور ان کے کارکنوں نے اخلاقیات کی ان حدوں کو روند ڈالا۔

ابتدا ہی سے عمران خان نے پاکستان کے عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے سیاست کو ایک مذہبی رنگ دینا شروع کیا، حالانکہ اس کا کبھی بھی مذہبی بیک گراؤنڈ نہیں رہا۔ وہ سیاست کو اخلاقی مہم کے طور پر پیش کرتے رہے لیکن ان کی اپنی اخلاقیات پر بڑے بڑے سوالیہ نشان تھے۔ وہ کبھی بھی جماعتوں کے درمیان ایک شائستہ سیاسی مقابلے کے قائل نہیں رہے بلکہ مخالفت کو ذاتی دشمنی سمجھا۔ ہر مخالف کو “چور، اچکا اور ڈاکو” پکارا۔

یہی نہیں، جلسوں میں اُن کے جملوں اور نعروں نے سیاسی ماحول کو مزید زہر آلود کر دیا۔ خود عمران خان نے بارہا اپنے خطابات میں نہ صرف مخالفین کے لیے طنزیہ اور تضحیک آمیز القابات گھڑے بلکہ اُنہیں عبرت کا نشانہ بنانے کی ترغیب بھی دی۔ جو صحافی اختلاف کرتے، اُنہیں “غدار” اور “لفافہ صحافی” کہا گیا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کو اُن کے ہزاروں کارکنوں نے دہرا کر ایک باقاعدہ سیاسی لغت کی شکل دے دی۔ سوشل میڈیا پر تو گالی گلوچ اور کردار کشی کو تحریکِ انصاف کی شناخت بنا دیا گیا۔

بے شمار مواقع اور مثالیں ہیں، لیکن اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سیاسی عمل سمجھنے کے بجائے عمران خان نے اسے ذاتی دشمنی قرار دیا اور ایسی دھمکی دی جس نے سیاست کو خاندانوں تک گھسیٹ لیا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان کے خلاف ووٹ دیں گے، وہ “سماجی ذلت” کا شکار ہوں گے، ان کے خاندان عزت کھو بیٹھیں گے، ان کے بچے اسکول نہیں جا سکیں گے، اور “ان کے بچوں سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔”

پاکستانی معاشرے میں یہ جملہ صرف سیاسی بیان نہیں بلکہ معاشرتی قتل کے مترادف تھا۔ اس ترغیب کے نتیجے میں، ان کے کارکنان نے متعدد ارکانِ اسمبلی کے ساتھ عوامی مقامات، خصوصاً ریسٹورانٹس میں، ان کے اہلِ خانہ کے سامنے بدتمیزی کی اور نازیبا آوازیں کسیں۔

اسی بدتہذیبی کے کلچر میں نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا، جبکہ شہباز شریف کی جانب بھی ایک موقع پر جوتا اُچھالا گیا۔ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ لیکن یہ سب کچھ صرف پاکستان تک محدود نہ رہا۔ بسترِ مرگ پر پڑی بیگم کلثوم نواز کے اسپتال کے سامنے ہڑبونگ مچائی گئی۔ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ جیسے مقدس مقامات پر بھی تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے حکومتی عہدیداروں کے خلاف بیہودہ نعرے لگا کر اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر لیں۔

لندن کی سڑکوں پر اور ان کی رہائش گاہوں کے سامنے میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت پاکستانی ججوں کو غلیظ گالیاں دی گئیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا دیکھیں تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گالم گلوچ، تضحیک، بیہودہ پروپیگنڈے اور نفرت انگیز رویے سے کوئی ادارہ یا شخصیت محفوظ نہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ علیمہ خان واقعے کی طرح تحریکِ انصاف نے کبھی ان واقعات کی مذمت نہیں کی، نہ اسے گھٹیا حرکت یا کسی پر حملہ قرار دیا اور نہ ہی کسی کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بلکہ ہر بار ایسے اقدامات کو سراہا گیا، فخر کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا گیا، اور اسے عوامی غصہ و ردعمل قرار دیا گیا۔ عمران خان خود بھی ان بدتہذیب لوگوں کو اپنا شیر اور چیتا قرار دیتے رہے ہیں۔ ایک موقع پر جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ایک ٹی وی رپورٹر کو تھپڑ مارا، تو مذمت کرنے کے بجائے عمران خان نے مسکرا کر کہا کہ وہ اپنی رپورٹنگ ٹھیک کرے۔

بار بار باشعور اور سنجیدہ حلقوں نے خبردار کیا کہ یہ کلچر یکطرفہ نہیں رہے گا۔ ذلت کا ہتھیار آخرکار اپنے ہی دامن کو پھاڑ ڈالے گا۔ لیکن یہ وارننگ کمزوری سمجھ کر مسترد کر دی گئی۔ اور گزشتہ روز وہی کچھ ہو گیا۔ علیمہ خان عوامی مقام پر انڈے کا نشانہ بنیں۔ یہ کوئی بڑا حادثہ نہیں، مگر ایک علامت ضرور ہے کہ بیج آخرکار فصل میں بدل گئے ہیں۔

دنیا کی تاریخ نے بارہا دکھایا ہے کہ ذلت کی سیاست آخرکار اپنے ہی بانیوں کو نگل لیتی ہے۔ انقلابِ فرانس کے لیڈر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہوئے انجام کو پہنچے۔ برصغیر کی سیاست میں بارہا ذاتی انتقام اور گالی گلوچ نے جمہوریت کو کمزور کیا۔ لیکن ہر بار نئی نسل یہی سمجھتی ہے کہ وہ اس زہر سے محفوظ رہے گی۔ تاریخ مگر ہر بار انہیں غلط ثابت کرتی ہے۔

پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ یا تو یہ سلسلہ مزید بڑھتا جائے گا ، گالی کے جواب میں گالی، ذلت کے جواب میں ذلت ، یا پھر یہ زنجیر توڑی جائے گی۔ یہ ذمہ داری صرف ایک جماعت یا ایک فرد پر نہیں بلکہ پورے سیاسی طبقے، میڈیا اور سماج پر ہے۔ عزت اور وقار واپس لائے بغیر سیاست زندہ نہیں رہ سکتی۔

یہ واقعہ ہمیں ایک کڑوا سبق دے رہا ہے: احترام کرو، احترام پاؤ۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر گندگی اور غلاظت پھیلاتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی کرو۔ اختلاف کرو تو دلیل اور شائستگی سے، نہ کہ گالی اور تضحیک سے۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ جس فرسٹریشن کا شکار ہے اور جس نفرت کے بیج عمران خان نے اپنے مخالفین کے لیے بوئے، وہ انڈوں پر ختم نہیں ہوں گے۔ اگر یہ روش نہ رکی تو یہ گولیاں بھی بن سکتی ہیں۔ اور جب گولیوں کی سیاست شروع ہو جائے تو پھر کوئی محفوظ نہیں رہتا۔

یہی وقت ہے کہ ہم سب رک کر سوچیں: کیا ہم آنے والی نسلوں کے لیے عزت کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں یا ذلت کی فصل کاٹتے رہیں گے؟ اگر ہم نے یہ نفرت نہ روکی تو پاکستان کی سیاست اور معاشرہ دونوں اس زہر سے مکمل طور پر برباد ہو جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts