پشاور ( غگ رپورٹ ) کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل بعض اہم گروپوں کے درمیان ایک بار پھر اختلافات کی خبریں زیر گردش ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مختلف گروپوں پر مشتمل کالعدم تحریک طالبان کے دو اہم شاخوں یا گروپوں میں بعض تنظیمی اور نظریاتی اختلافات پھر سے جنم لینے لگے ہیں ۔ معتبر اور باخبر ذرائع نے اس ضمن میں ” غگ ” کو بتایا کہ مفتی نور ولی گروپ اور نسبتاً زیادہ شدت پسند گروپ ” جماعت الاحرار” اس کے باوجود ایک بار پھر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوچکے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے مرکزی تنظیمی ڈھانچہ اور فیصلہ سازی میں جماعت الاحرار جو کافی نمایاں نمائندگی دی گئی ہے اور سربکف مہمند سمیت اس گروپ کے بانی عمر خالد خراسانی کے متعدد قریبی ساتھیوں کو اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں ۔
عمر خالد خراسانی کو سال 2023 کے دوران افغانستان میں نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ جماعت الاحرار کے علاوہ بعض دیگر حلقے بھی مفتی نور ولی گروپ پر ڈالتے آرہے ہیں۔ اگر چہ جماعت الاحرار مفتی کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ڈیڑھ سال قبل کالعدم ٹی ٹی پی میں ضم ہوگئی ہے تاہم بعض اہم ایشوز پر وقتاً فوقتاً اختلافات پیدا ہوتے آرہے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل جہاں ایک طرف ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک ٹویٹ میں بلا واسطہ طور پر مفتی نور ولی پر نظریات کی بجائے ذاتی پبلسٹی کی کوششوں کے الزامات لگائے وہاں ایک اور اہم کمانڈر اور ٹی ٹی پی کی ایک اہم کمیٹی کے ممبر سربکف مہمند کی ایک واٹس ایپ گروپ میں اعتراضات پر مشتمل وہ گفتگو بھی سامنے آئی جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت اپنے بنیادی اہداف سے ہٹ گئی ہے اور یہ کہ اس کی کارروائیاں اور سرگرمیاں صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ ان کے بقول پنجاب اور دیگر صوبوں میں حملوں کی اشد ضرورت ہے مگر وہاں عملاً کچھ خاص نہیں ہو رہا ۔
ان کے اس موقف پر کافی بحث ہوئی اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران پنجاب کے بعض علاقوں میں حملوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ ” جماعت الاحرار” کے بعض اہم حلقوں نے اس ضمن میں رابطے پر ” غگ ” کو بتایا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور اس کا تمام رہنماؤں کو پتہ ہے ۔ ان کے بقول سنٹرل پنجاب میں جتنی بھی کارروائیوں ہوئیں وہ ” جماعت الاحرار ” ہی نے کیے ہیں اور مزید کی پلاننگ جاری ہے ۔ ان کے مطابق مفتی نور ولی گروپ کے ساتھی پنجاب کے محض ان چند علاقوں میں غیر متاثر کن محدود کارروائیاں کرتے ہیں جو کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع کے قریب واقع ہیں ۔ یہ سب کچھ بالکل ناکافی ہیں ۔ دوسرا یہ کہ جتنی بھی پارٹیاں موجودہ پاکستانی نظام یا حکومتوں کا حصہ ہیں ان سب کے خلاف کارروائیاں لازمی ہیں ۔
اس ضمن اگر چہ مفتی نور ولی گروپ کے ذمہ داران محتاط انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی میں کوئی اختلافات نہیں ہیں اور تمام اہم فیصلے اس میں شامل گروپوں کی مشاورت سے کیے جاتے ہیں تاہم دوسری جانب سے وقتاً فوقتاً اختلافات سے متعلق خبریں آتی رہتی ہیں اور بعض مواقع پر یہ خبریں اہم افراد کی سوشل میڈیا ہینڈلرز سے پبلک بھی کی جاتی ہیں ۔