ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ نے نہ صرف یہ کہ شدت اختیار کرلی ہے بلکہ خطرہ ہے کہ اس کا دایرہ کار دیگر ممالک تک بھی پہنچ پھیل جائے اور امریکہ ، انگلینڈ اور روس جیسے ممالک بھی عملی طور پر اس جنگ میں کود جائیں۔
روس کے بعد چین اور امریکہ نے بھی جنگ روکنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کردی ہے تاہم فریقین تاحال اپنی اپنی پوزیشن پر قائم ہیں اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ۔ عالمی میڈیا اسرائیل کی بجائے ایران کی حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ حملے میں پہل اسرائیل نے کی تھی تاہم بھارت جیسے ممالک میڈیا وار فئیر کے تناظر میں نہ صرف یہ کہ اسرائیل کی وکالت کررہے ہیں بلکہ اس کے لیے باقاعدہ مہم بھی چلارہے ہیں حالانکہ ماضی قریب میں ایران اور بھارت کے درمیان کافی بہتر تعلقات قائم رہے ہیں اور دونوں ممالک چہار بہار سمیت مختلف دیگر بڑے پراجیکٹس پر مشترکہ کام بھی کرتے آرہے ہیں ۔
دوسری جانب پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات اور حساس نوعیت کے بعض ایشوز کے ہوتے ہوئے بھی ریاستی اور سیاسی طور پر کھل کر ایران کے ساتھ کھڑا ہے اور اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ایرانی صدر کو کال بھی کی جس پر اسرائیل اور بھارت کے میڈیا نے سخت ردعمل دکھایا ہے ۔
پاکستان میں سیاسی اور ریاست سطح پر جہاں ایران کی حمایت کھل کر کی جارہی ہے وہاں پاکستان میں ہر کسی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اگر ایران شکست کھا جاتا ہے یا کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کے پاکستان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ ایک تو یہ کہ بلوچستان مزید غیر محفوظ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اپنے ماضی کی کوششوں اور پالیسیوں کے تسلسل میں مزید تیزی لانے کی کوشش کرے گا اور ایسی ہر کوشش میں بھارت اور بعض دیگر ممالک اسرائیل کی مدد کریں گے ۔ ایسے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو کافی نازک صورتحال کا سامنا ہے اور وہ جاری جنگ سے چاہتے ہوئے بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔
دوسری جانب ان رپورٹس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت اپنی خفت مٹانے اور اپنے عوام کا پریشر کم کرنے کے لیے پاکستان پر ایک اور حملے کی تیاریاں کر رہا ہے ایسے میں پاکستان کو بہت الرٹ رہنا پڑرہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے ائیر ڈیفنس سسٹم کو ہائی الرٹ پوزیشن میں رکھا گیا ہے ۔
(جون 16، 2025)