اے وسیم خٹک
بحثیت میڈیا استاد کے جب حالیہ اسرائیل اور ایران کی لڑائی کو دیکھتا ہوں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جنگ میں صرف بندوق نہیں بولتی کیمرہ بھی گولی سے کم ہتھیار نہیں جو منظر دکھایا جاتا ہے وہی سچ سمجھا جاتا ہے اور جو چھپایا جاتا ہے وہ گویا ہوا ہی نہیں یہی کھیل ایک بار پھر جاری ہے اس بار اسرائیل کے ہاتھ میں کیمرہ ہے اور باقی دنیا کے سامنے ایک نیا تاثر چمک رہا ہے ہم مظلوم ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسرائیلی میڈیا پالیسی نے ایک حیرت انگیز قلابازی کھائی پہلے دو دن مکمل خاموشی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن تیسرے دن سے جیسے کسی نے کھل کر سٹیج سجا دیا ہو تباہ شدہ گاڑیوں پر چمکتے جھنڈے ملبے کے بیچ میں پوز بناتے لیڈر اور ایک منظم مظلومیت کا نیا باب کھل گیا وہ عمارتیں جو میزائلوں سے گری تھیں ان کے سامنے کیمرہ آن ہونے سے پہلے نئے جھنڈے نصب کیے گئے فوٹو سیشن ہوا ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالیں گئیں اور پیغام سیدھا عوام کے دل میں اتارنے کی کوشش کی گئی ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔
یہ سب کچھ نیا نہیں تاریخ میں یہی صفحہ بار بار پلٹا گیا ہے لندن پر جب جرمن بمباری ہوئی تھی تو برطانوی ریڈیو پر صرف یہ سننے کو ملتا تھا کہ عوام حوصلے میں ہیں گویا بم دھماکے نہیں بارش ہو رہی ہو اور ہٹلر کے جرمنی میں شکستیں پردے کے پیچھے رہیں اور پروپیگنڈا کے اسٹیج پر صرف کامیابیوں کا شور رہا۔
امریکہ نے ویتنام میں ہزاروں لاشوں کو اعداد و شمار کی شکل دی اور اسے فتح کے گراف میں چڑھایا لیکن جب وہی لاشیں ٹی وی پر آ گئیں اور ماں باپ نے اپنے جوان بیٹوں کے تابوت دیکھے تو سارا بیانیہ زمیں بوس ہو گیا۔
پاکستان اور بھارت کی انیس سو اکہتر کی جنگ کو کون بھولا ہے سقوط ڈھاکہ تک اخبارات فتح کی خبریں چھاپتے رہے اور جب ہتھیار ڈالنے کی تصویر آئی تو جیسے کسی نے آنکھوں سے پٹی ہٹا دی ہو۔
پھر انیس سو اکیانوے کی خلیج جنگ آئی اور امریکہ نے اسے ہائی ٹیک فلم بنا دیا میزائلوں کی لائیو فوٹیج شعلے دھواں اور مکمل خاموشی وہاں جہاں بچے مر رہے تھے۔
کئی برس بعد کارگل میں بھارت نے اپنے نقصانات چھپانے کی بھرپور کوشش کی جبکہ پاکستان کے جوانوں کی شہادت کی خبریں بھی ابتدا میں مکمل طور پر سینسر رہیں دونوں اطراف جنگ تھی لیکن کیمرے کی آنکھ صرف وہی دیکھنے دیتی تھی جو اوپر سے منظور شدہ ہوتا تھا۔
اب یہی کھیل اسرائیل کھیل رہا ہے جسے وہ حقیقت دکھا رہا ہے وہ کیمرے سے پہلے اچھی طرح ریہرسل کر کے ریکارڈ کی گئی مظلومیت ہے نیتن یاہو کے فوٹو شوٹ ہوں یا جھنڈوں کے ساتھ ملبے کی کوریوگرافی سب کچھ ایک اسکرپٹ کے مطابق ہے۔
اور مقصد واضح ہے دنیا کو دکھاؤ کہ ہم بھی زخمی ہیں تاکہ غزہ میں جلتے بچوں کی چیخیں تباہ ہوتے اسپتال اور ملبے میں دبی عورتیں کسی پرانی خبر کی صورت میں دفن ہو جائیں تاکہ مغربی عوام کی وہ ہمدردی جو اب فلسطین کی طرف جھکی ہے ایک بار پھر پرانی پٹری پر واپس آ جائے۔
جنگ اب صرف میدان میں نہیں لڑی جاتی یہ اب خبروں کے بلیٹن سوشل میڈیا کلپس اور ہیش ٹیگز کی جنگ بن چکی ہے اور اس جنگ میں جو بہتر منظر تخلیق کرے وہی سچ گھڑ لیتا ہے۔لیکن سچ کیمرے سے پہلے یا بعد آخرکار خود کو منوا ہی لیتا ہے۔